سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اجرک ڈیرائن کے ملبوسات تیار کرنے والی ایک امریکی کمپنی کے خلاف ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے، جس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
اجرک سندھ کی پہچان اور سندھی ثقافت کا اہم جز ہے۔ لیکن ایک امریکی کمپنی کی جانب سے اجرک ڈیزائن کے ملبوسات بنانے اور اسے ایک نیا نام دینے پر سوشل میڈیا کے صارفین آپس میں ہی الجھ گئے ہیں۔
اجرک ڈیزائن کے ملبوسات کی آن لائن فروخت جاری ہے۔ کمپنی نے اپنے اس ڈیزائن اور کلر کو 'برک ملٹی' کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان بھر اور خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی نے اجرک ڈیرائن کے ملبوسات بنانا ہی تھے تو اس کا نام بدلنے کی کیا ضرورت تھی۔
نیو یارک میں قائم اس کمپنی پر برہمی کا اظہار ظاہر کرنے والوں کا موقف ہے کہ یہ ملبوسات خالصتاً اجرک ڈیزائن میں ہیں اور جو لوگ سندھی ثقافت کو جانتے ہیں انہیں اجرک کی اہمیت اور قدر و قمیت کا اندازہ ہے۔ لہذا کمپنی کو چاہیے کہ وہ اسے 'اجرک ' ہی کا نام دیے اور یہ بھی بتائے کہ اجرک کا تعلق پاکستان سے ہے اور یہ صوبہ سندھ کی ثقافت کا ایک اہم جز ہے۔
ٹویٹر پر ایک معروف پاکستانی مصنفہ بینا شاہ نے کمپنی کے اس اقدام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ کمپنی کو بتانا چاہئے کہ اس نے یہ ڈیزائن سندھی اجرک سے لیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینئر سیاست دان شیری رحمن نے بھی اس سلسلے میں ایک ٹوئٹ کیا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کمپنی اجرک کا نام سے کیوں اجتناب کر رہی ہے۔ وہ اسے ’برک ملٹی‘ کیوں کہہ رہی ہے۔ ملبوسات خریدنے والوں کو یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نے اجرک سے متاثر ہو کر یہ ڈیزائن منتخب کیا ہے۔
تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پیٹرن کے استعمال سے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ اس لئے کمپنی کو کسی مخصوص ادارے کو اس کا کریڈیٹ دینے کی ضرورت نہیں۔
شیری رحمن کے ٹویٹ کے جواب میںرضا علی نام کے ایک صارف کا کہنا ہے کہ چونکہ اجرک کسی خاص شخص یا شخصیت کی ملکیت نہیں اس لئے اس کا کوئی کاپی رائٹ بھی نہیں بنتا۔
جبکہ رشید الدین اس خیال کے حامی ہیں کہ حکومت سندھ کو اس کا دعوے کرنا چاہئیے اور حکومت ڈیزائن کا معاوضہ بھی وصول کرے۔