امریکہ کو مواقع کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ مواقع, یعنی زندگی بہتر بنانے کے لئے سازگار حالات کا میسر ہونا۔ عموما امریکہ آنے والے تارکین وطن کو زندگی بہتر بنانے کے مواقع میسر آہی جاتے ہیں۔ لیکن, آج کل یہاں تارکین وطن کو کچھ نہ کچھ ایسا دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ بدل رہا ہے۔
سالوں سے امریکہ میں آباد تارکین وطن کو کچھ ایسے سوالوں کے جواب دینے پڑ رہے ہیں، جن کا انہیں 11 ستمبر2001ء کی دہشت گردی کے بعد بھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، اور جن کا تعلق ان کی نسلی یا مذہبی شناخت سے ہے۔ ان کا قصور؟ دہشت گردوں سے ملتا جلتا نام، یا مذہبی یا قومی پس منظر۔
سال 2016 کا امریکہ اپنے پینتالیسویں صدر کے انتخاب کی تیاری کر رہا ہے۔ اور امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے انتخاب کی مہم کو سب سے زیادہ جس سوال نے پریشان کر دیا ہے وہ یہ ہے آیا تمام مسلمان دہشت گرد ہیں؟ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد کل امریکی آبادی کا صرف ایک فیصد ہے۔ لیکن، ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمان تارکین وطن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کے بیان کے بعد یہ موضوع امریکہ کی صدارتی مہم میں اچانک اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے قومی کنوینشن میں ایک مسلمان پاکستانی امریکی خاندان کو دعوت خطاب دے کر، جن کے بیٹے نے عراق میں اپنے امریکی فوجی ساتھیوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان قربان کی تھی، مسلمان تارکین وطن کو امریکی صدارتی انتخاب کا اور بھی اہم موضوع بنا دیا۔ لیکن، کیا امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قومی پلیٹ فارم سے مسلمانوں کا ذکر امریکہ کے اس اقلیتی گروپ کی اہمیت کو تسلیم کرنے جیسا ہے؟
وجاہت علی ایک تمثیل نگار، قانون دان اور پبلک سپیکر ہیں اور مزاح کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں کو اپنی کہانی خود دوسروں کو سنانی ہوگی۔ مسلمان امریکہ میں کامیاب ہیں۔ امریکی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی اچھی باتوں میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن، ابھی تک انہوں نے اپنی کہانی امریکیوں کو سنانے کی کوشش نہیں کی۔
وجاہت علی کے بقول،’’ہم لکھاری نہیں ہیں۔ ہدایتکار نہیں ہیں۔ صحافی نہیں ہیں۔ ہم کاروبار میں اچھے ہیں۔ ڈاکٹری میں اچھے ہیں۔ کھانا پکاتے ہیں۔ اچھے علاقوں میں گھر خریدتے ہیں۔ گاڑی چلاتے ہیں۔ لیکن، جو ہماری کہانی ہے، اصل کہانی، اسلام کی، مسلمانوں کی، یہ ہم نے امریکیوں کو نہیں بتائی‘‘۔
’’ اگر ہم اپنی کہانی نہیں بتائیں گے تو وہ دوسرا بندہ ڈونلڈ ٹرمپ ہماری کہانی بتائے گا۔ اور بد قسمتی سے ہم اس کہانی میں امریکہ کے ولن ہیں‘‘۔وجاہت علی
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی ایک حالیہ تقریر میں پاکستانی سوشل میڈیا شخصیت قندیل بلوچ کے قتل کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اندازاً ہر سال ایک ہزار پاکستانی لڑکیاں اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔
سالوں پہلے لاہور سے کینیڈا آکر آباد ہونے والی راحیل رضا، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی مسلمانوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی بات سننی ضرور چاہئے، اور سوچنا چاہئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔۔ کیا مسلمان اس کے بارے میں کچھ کر سکتے ہیں۔ کیا انہیں ٹاؤن ہال میٹنگز کرنی چاہئیں کہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ اگر واقعی امریکہ کا صدر بن جائے تو ان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔
راحیل رضا کے بقول،’’میرا نہیں خیال کہ اگر وہ آ بھی گیا تو وہ کوئی ایسا بڑا قدم اٹھائے گا کیونکہ اس کی آئینی اور قانونی طور پر اجازت نہیں ہے مگر مسلمانوں پر سپاٹ لائٹ ہوگی ۔ اور
’’میری رائے میں تھوڑی بہت سپاٹ لائٹ مسلمانوں پر ہونی ضروری ہے‘‘۔ راحیل رضا
ان مسلمانوں پر، جو دہشت گرد ہیں ۔ کیونکہ دہشت گرد حملے بڑھتے جا رہے ہیں اور اسی لئے کہ کسی نے سپاٹ لائٹ نہیں ڈالی تھی‘‘ ۔
پاکستانی صحافی انور اقبال کہتے ہیں کہ امریکیوں کے ذہن میں مسلمانوں کے بارے میں سوالات موجود تھے کہ یہ لوگ جو ہمارے درمیان رہ رہے ہیں کون ہیں، کیا کر رہے ہیں، اچھے یا برے، کیسے لوگ ہیں، تو کم از کم اب امریکہ میں ایک مکالمے کا آغاز ہو گیا ہے۔انور اقبال کے بقول، ’’یہ احساس امریکیوں کو ہو گیا ہے کہ مسلمان اتنے برے لوگ نہیں ہیں۔ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ پاگل نہیں ہیں۔ دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہاں، ان کے اندر دہشت گرد ہیں۔ لیکن، یہ ہماری طرح کے عام انسان ہیں‘‘۔
لیکن کیا واقعی مسلمان امریکیوں کی مذہبی اور قومی شناخت کے درمیان کوئی تصادم موجود نہیں؟ اس سوال کا جواب صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہی نہیں، کہیں نہ کہیں خود امریکی مسلمان بھی اپنے اندر تلاش کر رہے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ دیکھتے ہیں!