فنکار حساس مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے گردوپیش سماجی،معاشی،سیاسی ونفسیاتی مدوجذر کو نسبتاً شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ سَچا اور سُچا فنکار عدم مساوات ، طبقاتی تفریق اور معاشرتی ناہمواریوں کے مارے لوگوں میں لطیف انداز سے امید کی کرن بکھیرتا ہے۔
ایسی ہی حساس طبیعت رکھنے والی یاسمین رشید ،رنگ وآہنگ سے نہ صرف اپنے شوق کی تسکین کررہی ہیں بلکہ معاشرے میں اپنا فعال کردار اداکرنے میں بھی مصروف ہیں۔
امریکی ریاست اوہائیو میں مقیم پاکستانی نژاد یاسمین کا کہناہے کہ ”گو کہ میں تیس سال سے زائد عرصے سے امریکہ میں رہتی ہوں مگر میرا دل پاکستانی ہے اور اپنے ہم وطنوں کے لیے کچھ بہتر کرنے کی سوچ ہمیشہ مجھ میں موجزن رہتی ہے۔“ اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کی نمائش اور مختلف ایسی غیر سرکاری تنظیموں کو عطیہ کرکے اس فنکارہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مٹی کا قرض ادا کررہی ہیں۔
”امریکہ میں دو غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں بسنے والوں کے لیے کام کررہی ہیں ان میں ایک تنظیم تعلیم کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے اور دوسری صحت کے شعبے میں معاونت کررہی ہے۔ میں انھیں اپنے فن پارے عطیہ کرتی ہوں اور وہاں کے رہنے والے بڑی فراخدلی سے انھیں خریدتے ہیں ۔ “
مصوری کے علاوہ یاسمین فن گائیکی کا سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے متعدد کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ سے اکتساب فیض کے بعد غزل، نیم کلاسیکی اور ہلکی پھلکی گائیکی کے انداز کو اپنا یا۔
”اپنی گائیکی کو بھی میں لوگوں کی خدمت اور مدد کے لیے استعمال کررہی ہوں۔ میرے شوز پر ٹکٹ نہیں ہوتا بلکہ خدمت خلق میں مصروف بہت سے تنظیمیں جو عطیاتی پروگرامز ترتیب دیتی ہیں میں ان میں پرفارم کرتی ہوں۔“
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ موسیقی کے انداز بھی بدل رہے ہیں اور یاسمین نے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی گائیکی میں نئے سازوں کی آمیزش سے اس طرف توجہ دینا شروع کی۔”کچھ ایسے لوگ ہیں جو کلاسیکی موسیقی سے ذرا نہیں ہٹتے اور کچھ زمانے کے ساتھ چلتے ہیں، تو میں نے سوچا یہ جو دور آیا ہوا ہے مختلف سا تو مجھے اس کے ساتھ چلنا ہے، تو میں نے بھی مغربی سازوں کا استعمال کیا مگر بنیاد وہی کلاسیکل ہی رکھی۔“
یاسمین رشید نے کہا کہ وہ اپنی مصوری اور گائیکی سے جس حد تک لوگوں کی مدد کرسکیں اور معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرسکیں وہ کرنا چاہتی ہیں۔ ”میں چاہتی ہوں لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جائے اس طرح کہ وہ تعلیم کو صرف اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے ہی استعمال نہ کریں بلکہ سوسائٹی میں مثبت تبدیلی لانے میں اپنا رول پلے کریں۔“
ان کا کہناتھا کہ خاص طور پر پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔”ایک لڑکی جب ماں بنتی ہے تو اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو سِوک سینس سکھائے گی جس سے ان کا اعتماد بڑھے گا اور یہی بچے جب بڑے ہوں گے تو پھر پتا چلے گا کہ تعلیم یافتہ عورت کے ہاتھوں پرورش پانے والی نسل کیا کردار ادا سکتی ہے۔“