بلوچستان: تین لاکھ بچوں کے فرضی اندارج پر ماہر تعلیم کی تشویش

فائل فوٹو

شعبہ تعلیم کی غیر تسلی بخش صورتحال کے تناظر میں یہ نیا انکشاف بلوچستان کے ماہرین تعلیم کے لیے ایک تشویش ناک بات ہے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پاکستان کے پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں جعل سازی کا یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہاں سرکاری اسکولوں میں تین لاکھ ایسے بچوں کا اندراج کیا گیا ہے جو حقیقت میں یہاں زیر تعلیم نہیں اور ساتھ ہی ساتھ 900 ایسے اسکول ہیں جن کا وجود صرف کاغذوں پر ہے۔

شعبہ تعلیم کی غیر تسلی بخش صورتحال کے تناظر میں یہ نیا انکشاف بلوچستان کے ماہرین تعلیم کے لیے ایک تشویش ناک بات ہے۔

ممتاز ماہر تعلیم اور سائنس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پروفیسر سراج احمد کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکومت اتنی بڑی تعداد میں جعلی اندارج کا بتا رہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے میں صرف ایک چوتھائی بچے ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہ صورتحال صوبے کے مستقبل کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگی۔

" مستقبل میں اگر ہم پرائمری اسکولوں میں 25 یا 30 فیصد بچے بھیج رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن لیول پر ہم تو پانچ فیصد بھی نہیں بھیج سکتے تو اس سے صوبے کو چلانے، اس سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے لیے ہمارے پاس مستقبل میں کیا ہو گا، کچھ بھی نہیں ہوگا۔"

انھوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس تناظر میں حکومت مزید سنجیدہ اقدام کرے گی۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن رواں ہفتے ہی ایک تقریب سے خطاب کے دوران انھوں نے اس نئے انکشاف پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے شعبہ تعلیم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

"میں آپ تمام ضلعی تعلیمی افسران سے کہتا ہوں، ہماری کمزوریاں ہیں، پیسے کم ہیں، وسائل کم ہیں لیکن جو وسائل مل رہے ہیں ان کو تو خدا کے لیے استعمال کرو نا۔۔۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں تھوڑی ہمت کرو اس صوبے کو بچاؤ جہالت سے یہ صوبہ آپ کا ہے۔"

بلوچستان کے 32 اضلاع میں پرائمری سے میٹرک تک تقریباً 12 ہزار 250 اسکول قائم ہیں جہاں 12 لاکھ سے زائد طلبا و طالبات کو پڑھانے کے لیے 45 ہزار اساتذہ کا بتایا جاتا ہے لیکن جہاں ایک طرف اسکولوں میں بچوں اور اساتذہ کی حاضری کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے وہیں سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اسکولوں میں حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا ایک پروگرام وضع کیا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے۔