|
ویب ڈیسک __امریکہ کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے لیے 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
عام طور پر اپنے ووٹنگ رجحانات کی وجہ سے امریکہ کی 50 ریاستوں میں اکثر ریاستوں کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کس پارٹی یا امیدوار کو برتری حاصل ہو گی۔
تاہم مختلف وجوہ کے باعث کئی ایسی ریاستیں ہیں جن کا سیاسی جھکاؤ ماضی کے مختلف الیکشن میں تبدیل ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں سوئنگ اسٹیٹس بھی کہا جاتا ہے۔ سخت مقابلہ ہونے کی وجہ سے انہیں بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس بھی کہا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سوئنگ اسٹیٹس کی تعداد میں کمی بیشی بھی ہوتی رہی ہے۔ 2024 کے صدارتی الیکشن میں سات ریاستیں سوئنگ اسٹیٹس ہیں جن میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔
امریکہ کا صدر بننے کے لیے درکار کم از کم 270 الیکٹورل ووٹس کا نمبر پورا کرنے کے لیے ان ریاستوں کا کردار انتہائی اہم ثابت ہو گا اور اسی وجہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سات ریاستیں مستقبل کے امریکی صدر کا فیصلہ کریں گی۔
یہاں سات سوئنگ اسٹیٹس کے بارے میں تفصیلات بتائی جارہی ہیں۔
پینسلوینیا
اس ریاست کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 19 ہے جو سوئنگ اسٹیٹس میں سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق امریکہ کی صدارت کا راستہ پینسلوینیا سے ہو کر گزرتا ہے۔
ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس دونوں نے کسی بھی سوئنگ اسٹیٹ کے مقابلے میں سب سے زیادہ مہم بھی اسی ریاست میں چلائی ہے۔
پینسلوینیا پہلے ڈیموکریٹس کا مضبوط قلعہ سمجھی جاتی تھی لیکن 2016 کے الیکشن میں ٹرمپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تھا۔ تاہم 2020 میں صدر جو بائیڈن نے یہاں سے کامیابی تو حاصل کی لیکن ان کی فتح کا مارجن بہت معمولی تھا۔
ریاست کے ابھی تک کے پولز کے مطابق اس سال بھی دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جس میں ریاست کے کسی حصے کے چند ووٹرز بھی فیصلہ کُن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پینسلوینیا میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں سے تقریباً نصف کالج ڈگری نہ رکھنے والے ورکنگ کلاس سفید فام شہری ہیں۔ ان میں سے بیش تر ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگر شہری علاقوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ رہا تو اس کا فائدہ کاملا ہیرس کو پہنچے گا کیوں کہ ان علاقوں کی آبادی زیادہ متنوع ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس سال لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن یعنی لیٹینو کمیونٹی کے پونے چھ لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2020 میں بائیڈن پینسلوینیا سے صرف 81 ہزار ووٹوں سے جیتے تھے۔
دیگر سوئنگ ریاستوں کی طرح پینسلوینیا کے لوگوں کا بھی بڑا مسئلہ اکانومی ہے اس لیے کاملا اور ٹرمپ نے اس ریاست میں انتخابی مہم کے دوران مہنگائی پر قابو پانے جیسے بیانات پر بھرپور توجہ دی۔
جارجیا
اپنے 16 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ جارجیا بھی انتخابی نتائج میں فیصلہ کن کرداد ادا کرنے والی ریاستوں میں شامل ہے۔ ماضی میں یہ ریڈ اسٹیٹ یا ری پبلکن کی حامی ریاست رہی ہے اور گزشتہ چھ صدارتی انتخابات میں یہاں سے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
تاہم 2020 میں جو بائیڈن نے بہت سخت مقابلے کے بعد جارجیا کے الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیے تھے۔ اس الیکشن میں کامیابی کے لیے کاملا ہیرس کو ریاست کی سیاہ فام آبادی کی بھرپور حمایت حاصل کرنا ہوگی جب کہ ٹرمپ نے بھی اس کمیونٹی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سر توڑ مہم چلائی تھی۔
پولز کے مطابق اگرچہ ٹرمپ کو جارجیا میں کاملا ہیرس کے مقابلے میں معمولی برتری حاصل ہے تاہم یہاں تاحال سخت مقابلہ ہی متوقع ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نارتھ کیرولائنا
امریکہ میں 2024 کے صدارتی الیکشن میں صدر جو بائیڈن کی جگہ نائب صدر کاملا ہیرس کے امیدوار بننے کے بعد نارتھ کیرولائنا ایک اہم بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹ بن کر ابھری۔
رواں سال جولائی میں نارتھ کیرولائنا میں صدر بائیڈن اپنے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے سات پوائنٹس پیچھے تھے۔ لیکن ہیرس کے میدان میں آنے کے بعد صورتِ حال تیزی سے تبدیل ہوئی جس کی وجہ سے نارتھ کیرولائنا ’ری پبلکن‘ اسٹیٹ سے ’ٹاس اپ‘ ریاست بن گئی ہے جہاں سے دونوں میں سے کوئی بھی امیدوار جیت سکتا ہے۔
نارتھ کیرولائنا، شمال مشرقی کوسٹل ریاست ہے جہاں حالیہ برسوں کے دوران بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگوں کی آمد نے اس ریاست کا سیاسی نقشہ بھی بدل دیا ہے۔
یہاں منتقل ہونے والوں میں زیادہ تر نوجوان اور اقلیتی گروپس کے لوگ ہیں جن میں سے کئی تیزی سے پھیلتے ٹیک سیکٹر کی وجہ سے یہاں آئے ہیں۔
اس نقل مکانی کی وجہ سے نیم شہری علاقوں میں ڈیموکریٹس کی حمایت بڑھی ہے۔ ریاست میں سیاہ فام آبادی بھی قابلِ ذکر ہے جو کاملا ہیرس کے صدارتی امیدوار بننے کی وجہ سے پرجوش ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب نارتھ کیرولائنا سات سوئنگ ریاستوں میں سے سب سے زیادہ دیہی آبادی رکھنے والی ریاست ہے۔ اور اس دیہی آبادی میں ری پبلکن کی حمایت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ڈیموکریٹس کو امید ہے کہ وہ 2008 کے بعد ایک پھر اس ریاست سے صدارتی انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی کمپین کو بھی ادراک ہے کہ سابق صدر کی وائٹ ہاؤس واپسی کے لیے نارتھ کیرولائنا16 الیکٹورل ووٹس کی اہمیت کیا ہے۔
مشی گن
ریاست مشی گن ایک زمانے میں امریکہ کی گاڑیاں بنانے کی صنعت کا مرکز تھی۔ یہاں 1992 کے بعد سے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ سوائے 2016 کے جب یہاں سے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف 11 ہزار ووٹوں سے اپنی ڈیموکریٹ حریف ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔
اگرچہ چار سال بعد جو بائیڈن نے ایک بار پھر مشی گن سے کامیاب ہو کر یہاں ری پبلکنز کی برتری ختم کر دی تھی لیکن اس بار پھر یہاں کانٹے کا مقابلہ ہے۔
امریکہ میں عرب کمیونٹی کی سب سے زیادہ تعداد بھی ریاست مشی گن میں بستی ہے۔ غزہ جنگ پر عرب کمیونٹی میں صدر جوبائیڈن کی حکومت کی پالیسوں پر ناراضی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ماہرین کے بقول ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کی حمایت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مشی گن میں دونوں امیدواروں کے حق اور خلاف جانے والے کئی پہلو بیک وقت پائے جاتے ہیں اس لیے ان کے بقول مشی گن کے 15 الیکٹرول ووٹس کے لیے بہت سخت مقابلہ متوقع ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایریزونا
اس ریاست کی آبادی 74 لاکھ سے زائد ہے اور ماضی کے انتخابات میں اس کا جھکاؤ ری پبلکنز کی جانب رہا ہے۔ گزشتہ 76 برسوں میں صرف تین ڈیموکریٹک امیدوار اس جنوب مغربی ریاست سے کامیابی حاصل کرسکے ہیں۔
سال 1948 میں ہیری ٹرومین، 1996 میں بل کلنٹن اور 2020میں سخت مقابلے کے بعد جو بائیڈن نے ایریزونا کے الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔
ماہرین کے مطابق ایریزونا میں بڑے پیمانے پر دیگر ریاستوں سے آبادی کی نقل مکانی اس کے ووٹنگ کے رجحان میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایزیزونا میں بسنے والی لاطینی یا لیٹینو اور ہسپانوی کمیونٹی کے ووٹ ریاست کے نتائج کے لیے انتہائی اہم تصور کیے جاتے ہیں۔
امریکہ کے حالیہ الیکشن کے لیے بھی ایروزنا کے 11 الیکٹورل ووٹ انتہائی اہم ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ایریزونا ان بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس میں شامل ہے جہاں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹ امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس دونوں نے بھرپور مہم چلائی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وسکونسن
یہ مڈ ویسٹرن اسٹیٹ جہاں اپنے ڈیری فارمز، چیز پروڈکشن اور بیئر ڈرنکنگ کلچر کی وجہ سے مشہور ہے، وہیں اس کی ایک وجۂ شہرت صدارتی الیکشن میں کانٹے کے مقابلے بھی ہیں۔
اس ریاست میں ووٹنگ ٹرینڈ میں تبدیلی کی بنیادی وجہ اس کی آبادی میں پایا جانے والا تنوع ہے۔ اس کی ایک وجہ یہاں مختلف سیاسی جحانات اور ملے جلے شہری اور دیہی علاقوں کا ہونا ہے۔
وہیں معیشت سے اسقاطِ حمل جیسے ایشو پر پائی جانے والی تقسیم بھی اسے سوئنگ اسٹیٹ کی پہنچان دیتی ہے۔ انتخابی مہم میں دونوں ہی بڑی جماعتیں وسکونسن کے 10 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیواڈا
اس ریاست کی آبادی 31 لاکھ ہے اور اس کی وجہِ شہرت اس کا سب سے بڑا شہر لاس ویگاس ہے جسے سِن سٹی یعنی ’شہرِ گناہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سات بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس میں سے بعض ریاستوں میں گزرتے وقت کے ساتھ بہت سی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ لیکن مغربی ریاست نیواڈا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی خاص سیاسی جماعت کا گڑھ نہیں رہی۔
نیواڈا میں 1960ء کے دہائی کے آخر سے 2000 کے ابتدائی برسوں تک ری پبلکن کو اکثریت ملتی رہی۔ لیکن اس کے بعد سے یہ ریاست دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سوئنگ کرتی آ رہی ہے۔ نیواڈا کی آبادی 1980 کے مقابلے میں اس وقت تین گنا ہے۔ یہاں حالیہ برسوں میں منتقل ہونے والی آبادی کیلی فورنیا سے آئی ہے جو ایک نسبتاً لبرل ریاست ہے۔
نومبر کے الیکشن میں ووٹ ڈالتے وقت نیواڈا کے رہائشی اس تجویز پر بھی ووٹ دیں گے کہ آیا اسقاطِ حمل کا حق ریاست کے آئین میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔
ماہرین کے مطابق نیواڈا میں اسقاطِ حمل کا مسئلہ گزشتہ الیکشن میں بھی ایک بڑا محرک ثابت ہو چکا ہے جو ٹرن آؤٹ میں اضافے کی وجہ بنتا ہے اور ان کے بقول اس الیکشن میں بھی یہ ایشوز ووٹرز کو باہر لاسکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیواڈا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا امکان نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ایک فیصلہ ساز بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹ ہونے کی وجہ سے ہی دونوں صدارتی امیدوار ٹرمپ اور کاملا ہیرس نے نیواڈا کے دورے کیے۔