سن1975ء کی بات ہے۔ فلم” شعلے“ کیا سپر، ڈوپر ہٹ ہوئی ہر طرف اسی کے چرچے ہونے لگے۔ بچوں کو’ گبرسنگھ ‘کے نام سے ڈرایا جانے لگا تو کہیں کوئی گھوڑی تانگہ کھینچتی نظر آتی تو لوگ اسے پیار سے ’دھنو‘ پکارنے لگتے ۔ یہاں تک کہ دوستوں کو بھی ”جے “اور ”ویرو“ کے نام سے جاناجانے لگا۔ یہ تمام ”شعلے“کے کریکڑز تھے جو اس وقت کی بلاک بسٹر فلم ہونے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔بالی ووڈ فلموں کو ایک نیارخ دینے والی تاریخی فلم بھی بن گئی۔
اس فلم کا نشہ ایسا چھایہ کہ بھارت کے متعدد سنیماہالز پر برسوں تک یہ فلم دکھائی جاتی رہی۔ اس کامیابی میں فلم کے مکالموں کا بھی بہت اہم کردار تھا۔ ”یہ ہاتھ مجھے دے دے ٹھاکر“، ”تیرا کیا ہوگا کالیہ “ اور ”کتنے آدمی تھے“ ۔۔۔یہ بظاہر بہت عام اورمعمولی فقرے ہیں مگر انہوں نے جو شہرت حاصل کی وہ غضب کی تھی۔
فلم کی اس شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا فلم تھری ڈی ورژن تیار کیا جارہا ہے ، جسے صرف چار مہینے بعد یعنی15 اگست کو نمائش کے لئے پیش کردیا جائے گا۔ یہ وہی تاریخ ہے جس پر یہ فلم پہلی مرتبہ ریلیز کی گئی تھی یعنی 15اگست 1975ء ۔ویسے بھی ’15اگست ‘بھارت کا ’یوم آزادی‘ ہے۔
”شعلے“کے پروڈیوسر جی پی سپی اور ڈائریکٹر رمیش سپی تھے جو جی پی سپی کے صاحبزادے ہیں۔ جی پی سپی کا 2007ء میں انتقال ہوا ، ان کے پوتے شان اتم سنگھ کے پاس” شعلے“ کے حقوق موجود ہیں ان کے مطابق ”شعلے “اپنی ریلیز کے 20سال بعد تک بھارت کی وہ واحد فلم تھی جسے سب سے زیادہ مرتبہ ٹی وی پر دکھایا گیا ۔
”شعلے “کے فنکاروں میں امیتابھ بچن، دھرمیندر، ہیما مالنی، امجد خان، سنجیو کمار، جیا بچن ، اے کے ہنگل ، اسرانی اور میک موہن شامل تھے۔ مذکورہ کاسٹ میں سے بہت سے لوگ اب اس دنیا میں موجود نہیں مثلاً امجد خان، سنجیوکمار اورمیک موہن ۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ شہرہ آفاق فلم بالی ووڈ کی ایک فلم ”میگنی فیکنٹ سیون“ سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ”میگنی فیکنٹ سیون“ ایک جاپانی فلم ”سیون سمورائے“ کی کاپی تھی جس کے ڈائریکٹر ،اکیرا کورا ساوا“ تھے۔
”شعلے “ نے بے شک باکس آفس پر بہت دھوم مچائی ، دنیا بھر میں اس کوبہت شہرت ملی لیکن ریلیز کے ابتدائی دنوں میں اسے بہت دیر سے پذیرائی ملی۔ اتنی دیر سے کہ فلم کے پروڈیوسرز اسے دوبارہ شوٹ کرنے کا ارادہ کربیٹھے تھے خاص کر فلم کے اختتام کو دوبارہ شوٹ کرنے کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی تھیں کہ فلم نے ریلیز کے دوسرے ہفتے سے زور پکڑنا شروع کردیا ۔ پھر تو جیسے جیسے دن گزرتے گئے ”شعلے“ کی شہرت امر ہوتی چلی گئی۔
”شعلے“ بھارت کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی جس نے ایک دو نہیں ایک سو سے زائد سنیماگھروں میں سلور جوبلی منائی یعنی مسلسل 25ہفتوں تک100سے زائد سنیما ہالز پر ”شعلے“ کے علاوہ کوئی اور فلم دکھائی ہی نہیں گئی۔ اسی فلم کو 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے “ کی ریلیز تک ،بھارت کی سب سے زیادہ دکھائی جانے والی فلم کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
”شعلے“ کے حوالے سے ایک اور دلچپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قدر شہرت کے باوجود اسے صرف ایک ہی فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اور وہ بھی ایڈیٹنگ کے لئے۔ ”شعلے“ میں امیتابھ بچن کی اداکاری کو بھی خاطر خواہ نہیں سراہا گیا جبکہ امیتابھ کو اس وقت شہرت کی سخت ضرورت تھی، وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی مرحلے میں تھے۔
”شعلے “ کی ریلیز کو چار دہائیوں گزر چکی ہیں ، چالیس برسوں بعد اس کے تھری ڈی ورژن کی باکس آفس پرکامیابی یا ناکامی، اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے گی کہ آیا اتنے سالوں میں فلم کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوا ہے یا کمی۔