زینت امان 70 کی دہائی میں بننے والی فلموں کا ایک بڑا نام ہے ۔ وہ ان خوش قسمت اداکاراوٴں میں سے ایک ہیں جن کی شہرت آج بھی ’ماند ‘نہیں پڑی۔ انہوں نے اپنے بعد آنے والی ہیروئنوں کے لئے کام کی نئی منزلیں ، نئی راہیں متعین کیں۔
وہ پہلی بھارتی ہیروئن ہیں جنھیں اپنے بولڈ کرداروں کی وجہ سےشہرت ملی۔ انھوں نے فلم بینوں کے ذہنوں میں روایتی فلمی عورت کے کردار کا تصور ہی بدل کر رکھ دیاتھا۔ ان سے قبل فلموں کی عورت روایات میں لپٹی ، انتہائی مجبور اور فرمانبردار سمجھی جاتی تھی۔
زینت امان کی والدہ ہندو جبکہ والد مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد امان اللہ خان 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”مغل اعظم“ اور” پاکیزہ“ جیسی یادگار فلموں کے اسکرپٹ رائٹر تھے۔ زینت بہت چھوٹی تھیں کہ ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی۔پھر جب وہ 13سال کی ہوئیں تو ان کے والد اس دنیا سے کوچ کرگئے جبکہ ماں نے دوسری شادی کرلی اور جرمنی چلی گئیں۔
زینت امان نے اپنے کیریئر کی بنیاد بھارت میں رکھی جو بعد میں آنے والی اداکاراؤں کے لیے مثال بن گیا۔ انھوں نے فلم انڈسٹری میں اپنا راستہ 1970ء کی” مس ایشیا پیسفک“ کا ٹائٹل جیتنے کے بعد کیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔
انھوں نے او پی رہلن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم” ہلچل “سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا لیکن یہ فلم فلاپ ہوگئی۔ اس کے بعد اوپی رہلن ہی کی دوسری فلم ”ہنگامہ“ میں انہوں نے کام کیا لیکن اتفاق سے یہ فلم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
لیکن ان کی تیسری فلم ”ہرے راما، ہرے کرشنا“اس قدر پسند کی گئی کہ وہ راتوں رات سپر اسٹار بن گئیں ۔ اس فلم میں ایک مغربی اور جذباتی طور پر مضطرب مے نوش لڑکی کے کردار نے انھیں نہ صرف ملک گیر شہرت عطا کی بلکہ انھیں اس وقت کی صف اول کی اداکارہ ممتاز سے بھی آگے لاکھڑا کیا۔
زینت امان کو اس فلم میں بہترین پرفارمنس کے لئے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔اس فلم کا ایک گیت ”دم مارو دم“اس قدر مقبول ہوا کہ اسے مذہبی گیت کی سی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ یہ گانا آج بھی سدا بہار گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔ حال ہی میں دپیکا پڈکون نے اس گیت کے ر ی مکس ورژن میں پرفارم کیا ہے، لیکن اس گیت کو وہ مقبولیت ہرگز نہیں مل سکی جو اصل گیت کو مل چکی تھی۔
اس کے بعدزینت کی ایک اور فلم ”یادوں کی بارت“ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے گیت ”چرا لیاہے تم نے جو دل کو “ میں ان کے گٹار بجانے کے انداز نے فلم کو ہٹ کر دیا۔ زینت متواتر فلم انڈسٹری کی تمام رکاوٹیں عبور کرتی رہیں اورانہوں نے اپنے لیے ایسے کردار منتخب کیے جو ان کرداروں سے یکسر مختلف تھے جو اس دور کی ”عام“ اداکارائیں ادا کرتی چلی آرہی تھیں۔
زینت کے کردار
زینت امان نے ایسے متعدد کردار ادا کئے جو اس سے قبل اس دور کی ہیروئنیں اداکرتے ہوئی گھبراتی تھیں۔ زینت امان نے فلم ”روٹی کپڑا اور مکان“ میں ایک موقع پرست عورت کا کردار ادا کیا جو ایک ارب پتی شخص کی خاطر اپنے محبوب کو ٹھکرا دیتی ہے۔
فلم’منورنجن“ میں ایک لا ابالی طوائف کا کردار ادا کیا، فلم ”دھند“ میں شادی کے بعد بھی جنسی معاملات میں ملوث عورت کا کردار ادا کیا اور فلم ”پریم شاستر“ میں ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جو ایک ایسے لڑکے سے محبت کر بیٹھتی ہے جو اس کی ماں کی محبت میں گرفتارہوتا ہے۔
زینت نے آہستہ آہستہ لیکن مستقل مزاجی سے فلم میں اس عورت کے تصور کو بالکل بدل کر رکھ دیا جو اپنے شوہر یا محبوب کی فرمانبرداری کی قسمیں کھانے تک محدود رہتی تھی۔
زینت امان نے راج کپور کی فلم ”ستیم شیوم سندرم“ میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اس فلم نے فلم بینوں کے ذہنوں پر جو تاثر چھوڑا وہ فلم کی اصل کہانی سے یکسر مختلف تھا، یعنی یہ فلم عورت کے اندرونی حسن پر مبنی تھی لیکن اس فلم پر زینت امان کی جنسی کشش غالب آگئی۔ یہ فلم زینت امان کی مختصر ترین ساڑھیوں اور ان کے ساتھی اداکار ششی کپور کے ساتھ بوس و کنار کے مناظر کی وجہ سے خبروں کا حصہ بن گئی لیکن زینت امان نے اپنی رجحان ساز طبیعت کے تحت فلم میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔
تاہم زینت کے بالی ووڈ میں رہنے کا موقع اس وقت کھٹائی میں پڑ گیا جب دھرمیندر کے علاوہ ریکس ہیریسن اور سلویا مائلز جیسے بین الاقوامی اداکاروں کے ساتھ انہوں نے فلم” شالیمار“ میں کام کیا۔ یہ فلم اپنے کمزور اسکرپٹ کی بدولت باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی۔
”ڈان“ وہ فلم تھی جس نے زینت امان کے کیریئر کو کئی ناکام فلموں کے بعد کامیابی کی طرف بڑھنے میں مدد دی۔ انہوں نے فلم میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ وہ امیتابھ بچن کی’ ایکشن فل‘ مہارت کے سامنے اس کے مقابلے میں کام کرسکتی ہیں۔
اپنے شاندار فلمی کیریئر کے دوران فلم ”عبداللہ“ کے سیٹ پر ان کا افیئر پہلے سے کئی مرتبہ شادی شدہ اداکار سنجے خان کے ساتھ چل نکلا۔کہا جاتا ہے کہ زینت امان نے خفیہ طور پر نکاح کرلیا لیکن سنجے اور اس کی بیوی زرینہ خان کی جانب سے ایک محفل میں زینت امان پر مبینہ حملے کے بعد دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس جسمانی حملے میں زینت امان کی ایک آنکھ مستقل طور پر خراب ہوگئی۔کئی سال بعد انھوں نے یہ بات ریکارڈ پر کہی کہ سنجے خان سے شادی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
اس کے بعد انھوں نے مظہر خان سے شادی کا ارادہ کرلیا جو ایک باصلاحیت اداکارتھا مگر وہ بہت زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ مظہر خان سے ان کا رشتہ بھی دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ وہ دونوں جب بھی ملتے ہر مرتبہ ان میں لڑائی ہوتی۔
بعد میں انھوں نے اچانک شادی کرلی جس نے انڈسٹری کے ہر فرد کو حیران کردیا۔ ان کی شادی بھی ان کے تعلقات کی طرح پرتشدد ثابت ہوئی، یہاں تک کہ زینت امان نے کئی مرتبہ عوام کے درمیان الزام عائد کیا کہ اس کا شوہر تشدد کرتا ہے۔
ان کی شادی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کو تھی کہ اتنے میں مظہرکو کینسر ہو جانے کی خبر ملی۔ پھر یہ ہوا کہ زینت امان نے اس کا خیال رکھنا شروع کردیا اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی 1988ء میں اس وقت مظہر کی بیماری پر خرچ کردی جب وہ اپنی بیماری سے آخری جنگ لڑ رہا تھا۔
شوہر کی وفات کے بعد انہیں مستقل مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کا اپنے سسرال والوں کے ساتھ دونوں بیٹوں اذان اور ذہان کی حوالگی کے معاملے پر جھگڑا چل رہا تھا۔ زینت آخر کار اپنے بچوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں اوروقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ ان کی نگہداشت اور اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے پر مرکوز کردی۔
زینت امان سلور اسکرین کی طرف لوٹ آئیں اور ”بھوپال ایکسپریس“ اور ”بوم“ جیسی فلموں میں کام کیا، جو مشکل ہی سے فلم بینوں کے ذہنوں پر اپنا تاثر قائم کرسکیں۔ آج زینت امان ایک خاموش زندگی گزار رہی ہیں اور کبھی کبھار کسی ایوارڈشو یا کسی تقریب میں نظر آجاتی ہیں۔ حال ہی میں زینت امان نے آئی آئی جے یو کے تحت موجودہ وقت کی بڑی اداکاراؤں کے ساتھ ایک ہی ریمپ پر واک کی ہے۔
زینت امان کو بالی ووڈ میں کام کرنے والے ایسے انقلابی چہروں میں شمار کیا جاتا ہے جس نے اپنے بولڈ روئیے اور قوت ارادی سے تن تنہا ہی بھارتی سنیما کا مزاج بدل کر رکھ دیا۔