امریکی سیاست میں سرگرم دو مسلمان امریکی لڑکیاں

Your browser doesn’t support HTML5

شبنم احمد نے بتایا کہ اپنے عہدے کی ایک سالہ میعاد کے دوران انہوں نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں تشدد پر قابو پانے پر بھی کام کیا۔ تشدد کے واقعات امریکی اسکولوں کا ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں کئی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

راحیلہ احمد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نہ صرف ریاست میری لینڈ کی پرنس جارج کاؤنٹی کے اسکول ڈسڑکٹ بورڈ کی طرف سے نامزد ہونے والی سب سے کم عمر رکن ہیں، بلکہ وہ ایک امریکن مسلم بھی ہیں؛ جب کہ اس سے قبل ان کی چھوٹی بہن شبنم احمد تعلیمی بورڈ میں اپنی کاؤنٹی کے تمام اسکولوں کے منتخب نمائندے کے طور پر کام کر چکی ہیں۔

پرنس جارج کاؤنٹی کے اسکول ڈسڑکٹ کا انتخاب جیتنے کے بعد، ’وائس آف امریکہ‘ ارودو سروس نے انہیں اپنے ٹیلی وژن شو ’کیفے ڈٰی سی‘ میں آنے اور نومبر میں ہونے والے صدراتی انتخابات میں ان کی ذمہ داریوں اور اسکول بورڈ کے کردار پر بات چیت کے لیے مدعو کیا۔

شو کےمیزبان اور اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمٰن سے سے گفتگو کرتے ہوئے، راحیلہ نے بتایا کہ وہ پرنس جارج کاؤنٹی میں رہتی ہیں اور وہیں پلی بڑھی ہیں۔ اس لیے، وہ اپنی کاؤنٹی کو کچھ لوٹانا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی چھوٹی بہن شبنم اور ان کے والی بھی اسی جذبے سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ انہیں اپنےگھر والوں کی جانب سے بھرپور تعاون اور مدد حاصل ہے۔

راحیلہ احمد نے بتایا کہ وہ دوسری بار ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ اس سے قبل وہ 2012 کے انتخابات جیت کر اسکول بورڈ کی رکن بن چکی ہیں جب وہ صرف اٹھارہ سال کی تھیں۔

امریکہ میں اسکول بورڈ کی بڑی اہمیت ہےاور اسے جمہوریت کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عوام کے نمائندوں پر مشتمل یہ اسکول بورڈ بہت با اختیار ہوتے ہیں۔ وہ اسکولوں کی پالیسیاں اور بجٹ بناتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔ راحیلہ نے بتایا کہ ان کی کاؤنٹی میں 120 سے زیادہ اسکول ہیں۔ اسکول بورڈ کے ارکان کی تعداد 13 ہے، جس کی ساخت میں اب تبدیلی آ رہی ہے، کیونکہ اب نوجوانوں میں اس کا رکن بننے کا رجحان بڑھ رہا ہے؛ جب کہ اس سے پہلے صرف بڑی عمر کے افراد ہی بورڈ میں آتے تھے۔

راحیلہ احمد کا کہنا ہے کہ بورڈ کا ممبر بننا آسان نہیں ہے۔ انہیں اپنی انتخابی مہم کے دوران کم از کم 7000 دروازوں پر جا کر دستک دینی پڑی تھی اور اس دوران انہوں نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ حلقے کےلوگ اسکول کے نظام میں کیا تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کے حلقہ انتخاب میں ووٹروں نے اس نشست کے لیے ایک نوجوان لڑکی کی حوصلہ افزائی کی۔

شبنم احمد بھی اپنی بڑی بہن راحیلہ احمد کی طرح مقامی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتی ہیں۔ انہوں نے اسکول کے اپنے آخری سال میں اسٹوڈنٹ بورڈ کا ممبر بننے کے لیے الیکشن لڑا اور اس میں کامیاب رہیں۔ اس وقت ان کی عمر محض 17 سال تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ اپنی اس حیثیت میں انہیں اسکولوں کی بہتری کے لیے کام کرنے کے ساتھ عملی سیاست کے متعلق بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

اُنھوں نے کہا کہ اپنے عہدے کی ایک سالہ میعاد کے دوران انہوں نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں تشدد پر قابو پانے پر بھی کام کیا۔ تشدد کے واقعات امریکی اسکولوں کا ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں کئی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

شبنم احمد نے بتایا کہ ان کا اسکول بورڈ بہت متنوع تھا جس میں خواتین اور مختلف نسلی اقلیتی گروپس سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

عملی سیاست میں اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ دونوں بہنیں تعلیمی شعبے میں ان کا ریکارڈ قابل تعریف ہے۔ اسکول میں شبنم کا اسکور فور پوائنٹ فائیو جب کہ راحیلہ کا فور تھا۔

راحیلہ اور شبنم کے والد شکور احمد میری لینڈ کی سیاست میں بہت سرگرم ہیں اور وہ ریاستی اسمبلی کے ڈیلیگیٹ کے الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، جب کہ ان کی والدہ ایک فارماسسٹ ہیں۔