افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی سفارت کار ڈین فلڈمن نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر مغربی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے کے خاکے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے، کہا ہے کہ ’اس سے امریکہ، اس کے اتحادیوں اور دنیا بھر کو محفوظ بنانے کی راہ ہموار ہوئی ہے‘؛ اور، ’یہ معاہدہ جنوبی ایشیائی خطے کے استحکام کے لیے بھی، جہاں ایران واقع ہے، اہمیت رکھتا ہے‘۔
سفیر فلڈمن نے ان خیالات کا اظہار، ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی وژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس کے چیف، فیض رحمٰن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
صدر براک اوباما کے خطاب کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اس سمجھوتے پر اس کے ڈھانچے کی روح کے مطابق عمل درآمد سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک کر دنیا کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
امریکہ اور کئی مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ امریکہ اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں چوری چھپے جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے؛ جب کہ ایران اس الزام کو مسترد کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام توانائی کے حصول اور تحقیق و تعلیم کے پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خصوصی امریکی سفیر، فلڈمن کا کہنا تھا کہ ’اِس تاریخی سمجھوتے کے فریم ورک پر گذشتہ کئی مہینوں اور خاص طور پر پچھلے کئی دنوں اور کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی سخت اور اصولی سفارت کاری کے نتیجے میں اتفاق ہوا ہے‘۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزیان میں آٹھ دن کی گفت و شنید کے بعد ایران اور یورپی یونین نے سمجھوتے کے خد و خال پر اتفاقِ رائے کا اعلان کیا ہے، جبکہ حتمی جوہری معاہدہ 30 جون تک دیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی سفیر ڈین فلڈمن کا کہنا تھا کہ یہ سمجھوتا خطے کے استحکام کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے ناطے، ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے، ایران اس سلسلے میں، کیثر ملکی اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا ہے۔ اور، ابھی حال ہی میں اس نے افغانستان پر بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں بھی حصہ لیا تھا۔ ایران کی شرکت سے ہمیں مختلف امور پر اس کی رائے جاننے اور رابطوں میں مدد ملتی ہے جو علاقائی استحکام کے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔
یمن کی لڑائی میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ پاکستان نے خود کرنا ہے۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ اس سلسلے میں، پاکستان میں بڑی سرگرمی سے کام ہو رہا ہے؛ اور، ہم اس کے منتظر ہیں کہ پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے‘۔
پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے، سفیر ڈین فلڈمن نے کہا کہ میں پچھلے چھ سال سے اس خطے میں کام کر رہا ہوں؛ اور، گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید دباؤ اور مشکلات میں رہے ہیں۔ تاہم، اسٹرٹیجک ڈئیلاگ نے انہیں بہتر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جنوری میں وزیر خارجہ جان کیری اور پاکستان کے درمیان وزارتی سطح پر اہم نوعیت کے مذاکرات ہوئے، جس سے آگے بڑھنے کے راستے کھلے۔ ہم مجموعی سیکیورٹی سے منسلک کلیدی امور پر پاکستان کے ساتھ تعاون میں اضافہ کر رہے ہیں۔
امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا ایک اہم حصہ دہشت گردی کی روک تھام اور امن وامان کے قیام کے لیے فورسز کے ساتھ تعاون ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو بہتری آئی ہے میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں اور ہم دہشت گردی کے انسداد سمیت دوسرے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایکزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے حالیہ امریکی دورے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اسے تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں جس سطح پر ان کی پالیسی سازوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں زیادہ تر توجہ افغانستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز اور اقتصادی اور علاقائی مسائل پر مرکوز رہی۔ اعلیٰ افغان قیادت نے اپنے دورے میں افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قربانیوں اور امداد کی تعریف کی ہے۔ دونوں ملک کے تعلقات اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہےہیں؛ اور یہ مرحلہ ہے افغانستان کی خود انحصاری کا۔