ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ نائن الیون کے واقعات پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں، جس کے ذریعے وہ یہ بتاناچاہتی ہیں کہ اس سانحے کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کس صورت حال سے گذرنا پڑا
واشنگٹن —
مسلم کمیونیٹیز کے لیے امریکی حکومت کی نمائندہٴخصوصی، جنہوں نے اب ہاروڈ یونیورسٹی میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، نے کہا ہے کہ ’امریکی محکمہ خارجہ کے تحت میں جو ذمہ داریاں نبھاتی رہی ہوں، ان کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ انسانیت سے تھا۔ میرا کام دنیا کی کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔ یہ کام میرے لیے باعث فخر بھی ہے اور میں نے اس میں بہت لطف بھی محسوس کیا‘۔
ٹیلی ویژن پروگرام ’کیفے ڈی سی‘ میں ’وائس آف امریکہ اردو سروس‘ کے سربراہ، فیض رحمٰن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ نائن الیون کے واقعات پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں، جس کے ذریعے وہ یہ بتاناچاہتی ہیں کہ اس سانحے کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کس صورت حال سے گذرنا پڑا۔
فرح پنڈت کا تعلق کشمیر سے ہے۔ وہ سری نگر میں پیدا ہوئیں اور بچپن میں ہی امریکہ آگئی تھیں۔ وہ یہیں پلیں بڑھیں۔ یہاں انہوں نے اپنی کمیونٹی کی خدمت اور ان کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے۔ وہ دو مرتبہ امریکی حکومت سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ اور پچھلے کچھ عرصے تک امریکی محکمہٴخارجہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے مسلم کمیونیٹز کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فرح پنڈت نے بتایا کہ ان کی کامیابیوں کا سفر مختلف راستوں سے ہوتا ہوا اس منزل تک پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سرکاری ملازمت دو حصوں میں بٹی ہوئی اور دونوں حصے ایک دوسرے سے بڑے مختلف ہیں۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اس وقت دوبارہ سرکاری ملازمت آگئی تھیں۔ پھر وہ پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئیں اور وہاں 10 سال گذارنے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس وقت دوبارہ سرکاری ملازمت میں آگئیں، جب نائیں الیون کے بعد ان کی خدمات کی ضرورت پڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ میں نے صدر بش سینیئر کے دور میں یو ایس اے آئی ڈی کے لیے کام کیا اور انسانی ہمدردی کی امداد کو مختلف کمیونیٹیز تک پہنچانے کا کام کیا۔ کالج میں میں اسٹوڈنٹ باڈی کی صدر رہی اور کالج کے سینیئر ایئر میں نے امریکی خاتون اول اور اسٹوڈنٹس کے درمیان ایک رابطے کے طور پر کام کیا۔
اپنے انٹرویو کے دوران، انہوں نے بتایا کہ میں نے ’اوول آفس‘ میں تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا، جن میں ری پبلیکن بھی تھے اور ڈیموکریٹ بھی۔ میں نے صدر بش کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور صدر اوباما کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے۔
مسلم کمیونیٹز کے لیے امریکی حکومت کے نمائندہ خصوصی کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری ذمہ داری یہ تھی کہ میں دنیا بھر میں جاؤں، لوگوں سے ملوں اور ان سے بات چیت کروں۔ اس سے مجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ دنیا بھر میں مختلف کمیونیٹیز کے لوگ ہمارے ملک اور اس کے عوام کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔
انہوں نے وزارت خارجہ میں اپنی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرا کام دنیا بھر کی مسلم کمیونیٹز کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کو سامنے لانا تھا، جن میں ٹیلنٹ موجود ہے۔ اور پھر ان ابھرتی ہوئی نمایاں آوازوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ مسلم دنیا کے نوجوان کیا کر رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس دنیا کا ایک اہم حصہ ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ مل کرچلنا ہے۔
فرح پنڈت کہتی ہیں کہ امریکہ اس طرح کا ملک نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ اس کے متعلق سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے متنوع ملک ہے جہاں آپ بڑے فخر کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں مساجد، اور مندر اورگرجا گھر اور دوسری عبادت گاہیں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہاں مذہب اور عقیدے کی بنا پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جاتا۔ چاہے آپ مسلمان ہوں، سکھ یا عیسائی یا چاہے آپ کا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو، اگر آپ میں ٹیلنٹ اور صلاحیت ہے تو آپ کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مساوی مواقع موجود ہیں۔ آپ اپنی ثفافت اور عقیدے کے مطابق لباس پہن کر بڑے فخر سے باہر نکل سکتے ہیں۔ امریکہ کا آئین اس آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
انہوں نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2004 ءمیں جب میں وہائٹ ہاؤس کے لیے کام کر رہی تھی تو وہاں کی لائبریری میں مجھے قرآن پاک کا نسخہ دکھائی نہیں دیا۔ میں نے جب اس جانب توجہ دلائی تو بلاتاخیر لائبیری میں قرآن پاک کا نسخہ رکھ دیا گیا جو وہاں آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح، صدر آئزن آور کو جب پتا چلا کہ واشنگٹن ڈی سی میں کوئی مسجد موجود نہیں ہے تو انہوں نے مسلم کمیونٹی کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین دی ۔ میساچوسٹس ایونیو پر موجود یہ مسجد علاقے کے مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے۔اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صدر اوباما نے 2009 ء میں اپنی افتتاحی تقریر میں کہا تھا کہ ہم مسلم دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
فرح پنڈت نے ایک پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف ایک جنونی شخص کے جذبات بھڑکانے والے کام کو دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنالیا جاتا ہے۔ لیکن، دوسرے لاکھوں ہزاروں امریکی جو مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں اور اپنے ہاں انہیں ہر ملک سے بڑھ کر مذہبی اور ثقافتی آزادیاں دیتے ہیں، کوئی ان کا ذکر بھی نہیں کرتا۔
ہاورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول میں اپنی نئی ذمہ داریوں سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ میں وہاں سیاسیات پڑھانے جا رہی ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں بھی میرا تعلق نئی نسل سے ہی ہے۔ یہاں مجھے یہ موقع ملا ہے کہ میں اپنے تجربات نوجوانوں کے ساتھ ایک نئے انداز میں شیئر کر سکوں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم نفرت پر مبنی سٹیریو ٹائپ انتہاپسند آئیڈیالوجی کو مسترد کردیں اور نئی نسل کو ان آوازوں پر توجہ دیں جو دنیا کو سنوارنے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
ٹیلی ویژن پروگرام ’کیفے ڈی سی‘ میں ’وائس آف امریکہ اردو سروس‘ کے سربراہ، فیض رحمٰن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ نائن الیون کے واقعات پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں، جس کے ذریعے وہ یہ بتاناچاہتی ہیں کہ اس سانحے کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کس صورت حال سے گذرنا پڑا۔
فرح پنڈت کا تعلق کشمیر سے ہے۔ وہ سری نگر میں پیدا ہوئیں اور بچپن میں ہی امریکہ آگئی تھیں۔ وہ یہیں پلیں بڑھیں۔ یہاں انہوں نے اپنی کمیونٹی کی خدمت اور ان کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے۔ وہ دو مرتبہ امریکی حکومت سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ اور پچھلے کچھ عرصے تک امریکی محکمہٴخارجہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے مسلم کمیونیٹز کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فرح پنڈت نے بتایا کہ ان کی کامیابیوں کا سفر مختلف راستوں سے ہوتا ہوا اس منزل تک پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سرکاری ملازمت دو حصوں میں بٹی ہوئی اور دونوں حصے ایک دوسرے سے بڑے مختلف ہیں۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اس وقت دوبارہ سرکاری ملازمت آگئی تھیں۔ پھر وہ پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئیں اور وہاں 10 سال گذارنے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس وقت دوبارہ سرکاری ملازمت میں آگئیں، جب نائیں الیون کے بعد ان کی خدمات کی ضرورت پڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ میں نے صدر بش سینیئر کے دور میں یو ایس اے آئی ڈی کے لیے کام کیا اور انسانی ہمدردی کی امداد کو مختلف کمیونیٹیز تک پہنچانے کا کام کیا۔ کالج میں میں اسٹوڈنٹ باڈی کی صدر رہی اور کالج کے سینیئر ایئر میں نے امریکی خاتون اول اور اسٹوڈنٹس کے درمیان ایک رابطے کے طور پر کام کیا۔
اپنے انٹرویو کے دوران، انہوں نے بتایا کہ میں نے ’اوول آفس‘ میں تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا، جن میں ری پبلیکن بھی تھے اور ڈیموکریٹ بھی۔ میں نے صدر بش کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور صدر اوباما کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے۔
مسلم کمیونیٹز کے لیے امریکی حکومت کے نمائندہ خصوصی کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری ذمہ داری یہ تھی کہ میں دنیا بھر میں جاؤں، لوگوں سے ملوں اور ان سے بات چیت کروں۔ اس سے مجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ دنیا بھر میں مختلف کمیونیٹیز کے لوگ ہمارے ملک اور اس کے عوام کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔
انہوں نے وزارت خارجہ میں اپنی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرا کام دنیا بھر کی مسلم کمیونیٹز کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کو سامنے لانا تھا، جن میں ٹیلنٹ موجود ہے۔ اور پھر ان ابھرتی ہوئی نمایاں آوازوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ مسلم دنیا کے نوجوان کیا کر رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس دنیا کا ایک اہم حصہ ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ مل کرچلنا ہے۔
فرح پنڈت کہتی ہیں کہ امریکہ اس طرح کا ملک نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ اس کے متعلق سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے متنوع ملک ہے جہاں آپ بڑے فخر کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں مساجد، اور مندر اورگرجا گھر اور دوسری عبادت گاہیں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہاں مذہب اور عقیدے کی بنا پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جاتا۔ چاہے آپ مسلمان ہوں، سکھ یا عیسائی یا چاہے آپ کا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو، اگر آپ میں ٹیلنٹ اور صلاحیت ہے تو آپ کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مساوی مواقع موجود ہیں۔ آپ اپنی ثفافت اور عقیدے کے مطابق لباس پہن کر بڑے فخر سے باہر نکل سکتے ہیں۔ امریکہ کا آئین اس آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
انہوں نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2004 ءمیں جب میں وہائٹ ہاؤس کے لیے کام کر رہی تھی تو وہاں کی لائبریری میں مجھے قرآن پاک کا نسخہ دکھائی نہیں دیا۔ میں نے جب اس جانب توجہ دلائی تو بلاتاخیر لائبیری میں قرآن پاک کا نسخہ رکھ دیا گیا جو وہاں آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح، صدر آئزن آور کو جب پتا چلا کہ واشنگٹن ڈی سی میں کوئی مسجد موجود نہیں ہے تو انہوں نے مسلم کمیونٹی کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین دی ۔ میساچوسٹس ایونیو پر موجود یہ مسجد علاقے کے مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے۔اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صدر اوباما نے 2009 ء میں اپنی افتتاحی تقریر میں کہا تھا کہ ہم مسلم دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
فرح پنڈت نے ایک پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف ایک جنونی شخص کے جذبات بھڑکانے والے کام کو دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنالیا جاتا ہے۔ لیکن، دوسرے لاکھوں ہزاروں امریکی جو مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں اور اپنے ہاں انہیں ہر ملک سے بڑھ کر مذہبی اور ثقافتی آزادیاں دیتے ہیں، کوئی ان کا ذکر بھی نہیں کرتا۔
ہاورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول میں اپنی نئی ذمہ داریوں سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ میں وہاں سیاسیات پڑھانے جا رہی ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں بھی میرا تعلق نئی نسل سے ہی ہے۔ یہاں مجھے یہ موقع ملا ہے کہ میں اپنے تجربات نوجوانوں کے ساتھ ایک نئے انداز میں شیئر کر سکوں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم نفرت پر مبنی سٹیریو ٹائپ انتہاپسند آئیڈیالوجی کو مسترد کردیں اور نئی نسل کو ان آوازوں پر توجہ دیں جو دنیا کو سنوارنے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5