کراچی کے مختلف علاقوں میں گھوڑے ، تانگے اور اونٹ نظر آ رہے ہیں لیکن اس کی وجہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت نہیں۔
واشنگٹن —
کراچی کے مختلف علاقوں میں گھوڑے ، تانگے اور اونٹ نظر آ رہے ہیں لیکن اس کی وجہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت نہیں، اور نہ ہی اس کی وجہ ہر دوسرے روز ہونے والی سی این جی اسٹیشنوں کی بندش ہے۔
ہر سال کراچی کے کچھ پرانے علاقوں میں رمضان کے مہینے میں بچوں کی تفریح کے لئے لگنے والے یہ چھوٹے چھوٹے میلے جن میں بچے گھوڑے، گھوڑا گاڑی، تانگے اور اونٹ کی سواری کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہاں موجود جھولے اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے بچوں کو سستی تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک چھوٹا سا میلہ کراچی کے علاقے جمشید روڈ نمبر تین میں بھی لگتا ہے جہاں راقم نے جا کر ان ساری سواریوں کی سواری کی اور وہاں موجود مختلف لوگوں سے تفریح کے اس ذریعے کے بارے میں کچھ باتیں بھی کیں۔
بادل نامی ایک تانگے والے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے کہا، " کراچی میں ایک گھوڑا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا مل جا تا ہے اور یہ دن میں دو بار دو، دو سو روپے کا کھانا کھا جاتا ہے اور یوں دس روپے فی سواری کے حساب سے پہلی چالیس سواریوں کے پیسے تو خود گھوڑا ہی کھا جاتا ہے۔ میرا اور میرے بچوں کا حصہ تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے "۔
بادل کا کہنا تھا کہ اس کا گھوڑا نہایت وفادار ہے۔ ویسے تو بادل ایک چھوٹے چکر کے ایک سواری سے دس روپے لیتا ہے لیکن میرے پورا تانگا 'بک' کرنے کے 50 روپے لیتے ہوئے اس نے مجھے اس علاقے کا بڑا سا چکر دلایا اور اس کی باتوں سے مجھے یہ سمجھ آ یا کہ دوسروں کے بچوں کو اردو والا 'سفر' کرونے والے کے اپنے بچے انگریزی والا 'سفر' کرتے ہیں۔
اگلی سواری تھی گھوڑا گاڑی کی جو 100 روپے میں بک ہوئی اور سواری کے دوران گھوڑا گاڑی چلانے والے کا زیادہ تر وقت ان بچوں کو ڈانٹنے میں اور گھوڑا گاڑی سے اتارنے میں نکل گیا جو مفت میں اس کی گھوڑا گاڑی پہ سوار ہو کر چکر کھاتے اور شاید یہ ریس بھی لگاتے رہے کہ کون زیادہ دیر تک گھوڑا گاڑی سے مفت میں لٹکا چکر کھاتا رہا۔
علاقے کے ایک رہائشی فیصل نے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے کیوں کہ روزے ، نماز اور تراویح کے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر ہم قریب ہی بچوں کو تفریح کے لئے لے جاتے ہیں اور پھر یہ ان سکے ڈال کر چلنے والے والے جھولوں کی طرح مہنگے بھی نہیں جو بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ہوتے ہیں۔
البتہ محلے کے کچھ بزرگوں کے مطابق یہ سب فالتو شور شرابہ ہے اور اس سے علاقے میں جانوروں کے گند کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی آمد و رفت بھی متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کے لئے گھوڑے کا چکر دس روپے کا جبکہ میرے لئے سو روپے کا تھا لیکن میں نے اس سواری کے دوران اور سواری کے بعد یہ جانا کہ کراچی کے لوگوں کو اگر اپنے بچوں کو ان جانوروں کی سواری کرانی ہے تو کچھ زیادہ پیسے خرچ کر کےخود بھی ان بچوں کے ساتھ سواری کریں۔ کیوں کہ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کو سستی تفریح دینے والوں کے روپ میں جرائم پیشہ عناصر بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں اور اس علاقے سے کچھ آگے اسی طرح بچوں کے اغوا کی کوشش کی گئی تھی جو بچوں کے شور مچانے پر ناکام ہو گئی۔
کراچی کے گلی کوچوں کی یہ رونق چاند رات کو اپنے عروج پر پہنچ کر عید کے بعد اگلے سال تک کے لیے پھر غائب ہو جائے گی۔
ہر سال کراچی کے کچھ پرانے علاقوں میں رمضان کے مہینے میں بچوں کی تفریح کے لئے لگنے والے یہ چھوٹے چھوٹے میلے جن میں بچے گھوڑے، گھوڑا گاڑی، تانگے اور اونٹ کی سواری کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہاں موجود جھولے اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے بچوں کو سستی تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک چھوٹا سا میلہ کراچی کے علاقے جمشید روڈ نمبر تین میں بھی لگتا ہے جہاں راقم نے جا کر ان ساری سواریوں کی سواری کی اور وہاں موجود مختلف لوگوں سے تفریح کے اس ذریعے کے بارے میں کچھ باتیں بھی کیں۔
بادل نامی ایک تانگے والے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے کہا، " کراچی میں ایک گھوڑا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا مل جا تا ہے اور یہ دن میں دو بار دو، دو سو روپے کا کھانا کھا جاتا ہے اور یوں دس روپے فی سواری کے حساب سے پہلی چالیس سواریوں کے پیسے تو خود گھوڑا ہی کھا جاتا ہے۔ میرا اور میرے بچوں کا حصہ تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے "۔
بادل کا کہنا تھا کہ اس کا گھوڑا نہایت وفادار ہے۔ ویسے تو بادل ایک چھوٹے چکر کے ایک سواری سے دس روپے لیتا ہے لیکن میرے پورا تانگا 'بک' کرنے کے 50 روپے لیتے ہوئے اس نے مجھے اس علاقے کا بڑا سا چکر دلایا اور اس کی باتوں سے مجھے یہ سمجھ آ یا کہ دوسروں کے بچوں کو اردو والا 'سفر' کرونے والے کے اپنے بچے انگریزی والا 'سفر' کرتے ہیں۔
اگلی سواری تھی گھوڑا گاڑی کی جو 100 روپے میں بک ہوئی اور سواری کے دوران گھوڑا گاڑی چلانے والے کا زیادہ تر وقت ان بچوں کو ڈانٹنے میں اور گھوڑا گاڑی سے اتارنے میں نکل گیا جو مفت میں اس کی گھوڑا گاڑی پہ سوار ہو کر چکر کھاتے اور شاید یہ ریس بھی لگاتے رہے کہ کون زیادہ دیر تک گھوڑا گاڑی سے مفت میں لٹکا چکر کھاتا رہا۔
علاقے کے ایک رہائشی فیصل نے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے کیوں کہ روزے ، نماز اور تراویح کے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر ہم قریب ہی بچوں کو تفریح کے لئے لے جاتے ہیں اور پھر یہ ان سکے ڈال کر چلنے والے والے جھولوں کی طرح مہنگے بھی نہیں جو بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ہوتے ہیں۔
البتہ محلے کے کچھ بزرگوں کے مطابق یہ سب فالتو شور شرابہ ہے اور اس سے علاقے میں جانوروں کے گند کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی آمد و رفت بھی متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کے لئے گھوڑے کا چکر دس روپے کا جبکہ میرے لئے سو روپے کا تھا لیکن میں نے اس سواری کے دوران اور سواری کے بعد یہ جانا کہ کراچی کے لوگوں کو اگر اپنے بچوں کو ان جانوروں کی سواری کرانی ہے تو کچھ زیادہ پیسے خرچ کر کےخود بھی ان بچوں کے ساتھ سواری کریں۔ کیوں کہ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کو سستی تفریح دینے والوں کے روپ میں جرائم پیشہ عناصر بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں اور اس علاقے سے کچھ آگے اسی طرح بچوں کے اغوا کی کوشش کی گئی تھی جو بچوں کے شور مچانے پر ناکام ہو گئی۔
کراچی کے گلی کوچوں کی یہ رونق چاند رات کو اپنے عروج پر پہنچ کر عید کے بعد اگلے سال تک کے لیے پھر غائب ہو جائے گی۔