پاکستان کے ہر چار میں سے ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک کسی انتخابی امیدوار کی شخصیت سے زیادہ اس کی سیاسی وابستگی اہم ہے۔
وائس آف امریکہ کے سروے میں نوجوانوں سے انتخابات میں ان کی ترجیحات سے متعلق کئی سوالات پوچھے گئے تھے۔
سروے میں 29 فی صد نوجوانوں نے کہا کہ ان کے نزدیک انتخابات میں امیدوار کے بجائے سیاسی جماعت زیادہ اہم ہے اور ان کا ووٹ امیدوار سے قطعِ نظر سیاسی جماعت کو جاتا ہے۔
اٹھارہ فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے امیدوار زیادہ اہم ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔
سروے میں سب سے زیادہ یعنی 35 فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ دیتے وقت انتخابی امیدوار اور اس کی سیاسی وابستگی دونوں کو ہی مدِ نظر رکھتے ہیں۔
جب ان 35 فی صد نوجوانوں سے دوبارہ یہ سوال کیا گیا کہ وہ سیاسی جماعت یا اُمیدوار میں سے کسے ترجیح دیں گے تو ان کی اکثریت (53 فی صد) نے سیاسی جماعت کے حق میں رائے دی۔
سات فی صد نوجوانوں کے مطابق وہ ذات اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ ذات اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے والوں کی تعداد شہروں اور دیہات میں برابر ہے۔
سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں ذات برادری کی بنیاد ووٹ دینے والوں کی تعداد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زیادہ ہے۔
سروے میں شامل 10 فی صد نوجوانوں نے اس بارے میں رائے دینے سے معذرت کی کہ وہ اپنے ووٹ کا فیصلہ کس بنیاد پر کرتے ہیں۔
سروے کے نتائج اس رجحان کو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی جماعتوں کو ترجیح دیتی ہے جب کہ صرف 18 فی صد نوجوان وہ ہیں جو الیکٹ ایبلز کو ووٹ دیتے ہیں۔
سروے نتائج ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں اور سیاست دان اور انتخابی امیدوار نوجوان ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
دیہی اور شہری کی تقسیم
پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ دیہی علاقوں میں مخصوص سیاسی خاندانوں کے افراد یا الیکٹیبلز ہی کامیاب ہوتے ہیں جب کہ شہری علاقوں میں امیدواروں سے قطعِ نظر زیادہ تر ووٹ سیاسی جماعتوں کو پڑتا ہے۔
لیکن سروے کے مطابق شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ایسے نوجوانوں کی تعداد تقریباً برابر ہے جو امیدوار اور اس کی سیاسی وابستگی دونوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اہلِ خانہ کی رائے
سروے میں جب نوجوانوں سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کے ووٹ کے فیصلے پر اہلِ خانہ کی رائے اثر انداز ہوتی ہے تو 47 فی صد نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔
اہلِ خانہ کی رائے مردوں (45 فی صد) کے مقابلے میں خواتین ووٹرز پر زیادہ (49 فی صد پر) اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح دیہات میں رہنے والے نوجوانوں کے ووٹ پر اہلِ خانہ کی رائے کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔
سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے نوجوان اپنے ووٹ کا فیصلہ زیادہ آزادی سے کرتے ہیں۔