بھارت کی سپریم کورٹ نے نئی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف جاری خواتین کے احتجاجی مظاہرے کو ختم کرانے سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ حکومت نے ایک قانون بنایا ہے جس کے خلاف عوام کو شکایتیں ہیں۔ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو احتجاج کرنے کا حق ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ آپ کسی عوامی شاہراہ کو بند نہیں کر سکتے۔ ایسے علاقے میں غیر معینہ مدت تک احتجاج نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جگہ متعین کی گئی ہے۔ وہاں جایے۔
عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ دوسرے فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ صادر نہیں کر سکتی۔ اگلی سماعت کے لیے 17 فروری کی تاریخ مقرر کی گئی۔ عدالتی بینچ نے کہا کہ اگر یہ احتجاج 58 دن تک چل سکتا ہے تو آپ ایک ہفتہ اور انتظار کر سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل عدالت نے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتی کیونکہ وہ دہلی کے اسمبلی الیکشن کو متاثر کرنا نہیں چاہتی۔
ایڈووکیٹ امت ساہنی نے درخواست دائر کرکے دہلی ہائی کورٹ کے 14 جنوری کے اس فیصلے پر، جس میں اس نے پولیس سے کہا گیا تھا کہ وہ نظم و نسق اور عوامی سہولتوں کو دیکھتے ہوئے کارروائی کرے، کہا کہ اس احتجاج کی وجہ سے کالندی کنج سے شاہین باغ ہوتے ہوئے متھرا روڈ تک جانے والی شاہراہ بند ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف 15 دسمبر سے ہی خواتین کا دھرنا جاری ہے۔
احتجاج میں موجود خواتین کا کہنا ہے کہ جب تک سی اے اے او رمجوزہ این آر سی کو حکومت واپس نہیں لے لیتی وہ دھرنے سے نہیں اٹھیں گی۔
دریں اثنا چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والے ایک دوسرے بینچ نے شاہین باغ مظاہرے میں ایک شیر خوار بچے کی موت کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکزی اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بینچ نے احتجاجی ماؤں کے وکلا سے کہا کہ ہم خواتین کے ماں ہونے کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ہم بچوں کے لیے بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ ان کے ساتھ برا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے شاہین باغ میں 30 جنوری کی شب ایک چار ماہ کے بچے کی موت پر نوٹس لیا ہے۔ بچے کی ماں اس کو احتجاج میں لے جاتی تھی جہاں سردی سے اس کی موت ہوئی۔اس کے باوجود اس کی ماں نے کہا ہے کہ وہ احتجاج میں جانا بند نہیں کرے گی۔ وہ مذکورہ قانون کے خلاف احتجاج جاری رکھے گی۔
احتجاج میں شریک بعض خواتین کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ اسکولوں میں ان کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بچے روتے ہوئے گھر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں انہیں پاکستانی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس بوبڈے نے کہا کہ اس بات کا تعلق اس معاملے سے نہیں ہے۔