خلائی تحقیق کے مرکز کے چیئرمین ڈاکٹر کے سیوان نے کہا ہے کہ خلائی جہاز سے رابطہ منقطع ہونے سے اس قومی منصوبے کو دھچکہ لگا ہے جس کا مقصد چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں بھارت کی خلائی گاڑی اتارنا تھا۔
اگر 'چندریان ٹو' کامیابی سے چاند پر لینڈ کرجاتا تو بھارت امریکہ، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر خلائی جہاز اتارنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔
بھارتی سائنس دان پر امید تھے کہ 'چندریان ٹو' چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں اترنے میں کامیاب رہے گا۔
چاند کے قطب جنوبی پر اب تک کسی بھی ملک کا کوئی خلائی مشن نہیں گیا ہے اور اس جگہ کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔
بھارت کے 'چندریان ٹو' مشن پر مجموعی طور پر 14 کروڑ ڈالر لاگت آئی تھی۔ اس مشن میں استعمال ہونے والی خلائی گاڑیاں اور آلات بھارت نے خود تیار کیے تھے اور اسے سستی ترین خلائی گاڑی قرار دیا جارہا تھا۔
اگر 'چندریان ٹو' مشن کامیاب ہو جاتا تو چاند پر سستے مشن بھیجنے کا راستہ کھل سکتا تھا۔
یہ مشن اس لیے بھی زیادہ اہم تھا کیوں کہ اب پرائیویٹ سیکٹر خلا میں سرمایہ کاری کا سوچ رہا ہے جس کے لیے اخراجات میں کمی اہمیت رکھتی ہے۔
چاند گاڑی اتارنے کے لیے جس علاقے کا انتخاب کیا گیا تھا، وہاں کھائیاں اور گڑھے ہیں جن کے مطالعے سے سائنس دانوں کو نظام شمسی کے ابتدائی ادوار اور تخلیقِ کائنات سے متعلق معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔
بھارتی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چاند کے قطبِ جنوبی میں پانی موجود ہے اور 'چندریان ٹو' انہیں اس کے بارے میں شواہد فراہم کرسکتا تھا۔