بچوں نے بچت کے حوالے سے اپنی ترجیحات کے بارے میں بتایا کہ، وہ اپنے جیب خرچ کا ایک حصہ محفوظ کر لیتے ہیں ۔ بچوں کا کہنا تھا کہ ، اپنی بچت سے وہ مستقبل میں یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس ، گھر اور نیا کاروبارخریدنےکا ارادہ رکھتے ہیں
لندن —
دنیا کی معیشت پر ان دنوں کالے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں ان دنوں معاشی بحران سے نکلنے کے لیے حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور عوامی مراعات کی کٹوتیوں نے گھریلو مسائل کو اس قدر گھمبیر بنا دیا ہےکہ متوسط گھرانوں میں معاشی مسائل کا جن اس طرح بوتل سے باہر آیا ہے کہ اسےواپس بوتل میں بند کرنا تقریباً نا ممکن نطر آتا ہے۔
گذشتہ ماہ برطانیہ میں صارفین کے ایک گروپ ’وِچ‘ کی جانب سے ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق برطانیہ میں50 لاکھ افراد معاشی بد حالی میں مبتلا ہیں۔
اس جائزے میں شامل ہونے والے ہرپانچ میں سے ایک فرد کا کہنا تھا کہ ، وہ اپنی ماہانہ آمدنی کو کھینچ تان کر بھی کھانے پینے کے اخراجات ، بل اور مکان کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا لہذا ہر ماہ انھیں اوور ڈرافٹ ،کریڈٹ کارڈ اور قرضوں کی مدد سے گھریلو اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں ۔
68 فیصد افراد کی رائے میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان کی آمدنی محدود ہے۔ اسی طرح 84 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ دن بدن قرض اور کریڈٹ کارڈ کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں ۔31 فیصد خواتین نے کہا کہ انھوں نے اپنی روزمرہ ضروریات کو بہت محدود کر لیا ہے۔
معاشی صورت حال جہاں بہت سے خاندانوں پر اثر انداز ہورہی ہے وہیں بچے بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں جنھیں والدین کی پریشانی اور فکر نے وقت سے پہلے ہی سمجھدار بنا دیا ہے۔ ان بچوں نے اپنے آنے والے کل کی منصوبہ بندی آج سے ہی شروع کر دی ہے ۔
معاشی بحران کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں میں بچت کا رجحان جاننے کے بارے میں ایک برطانوی مالیاتی ادارے نے جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق برطانیہ میں کم عمر بچوں کی ایک بڑی تعداد بچت کر رہی ہے ۔
برطانوی مالیاتی ادارے اسکاٹش وڈوز کے ایک جائزے میں 2 ہزار بچوں اور والدین کو شامل کیا گیا۔ بچوں نے بچت کے حوالے سے اپنی ترجیحات کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنے جیب خرچ کا ایک حصہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ بچوں کا کہنا تھا کہ اپنی بچت سے وہ مستقبل میں یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس، گھر اور نیا کاروبارکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسکاٹش وڈوزکے مطابق بچوں میں بچت کا رجحان سب سے زیادہ 10برس کی عمر کے بچوں میں نظر آیا ہے۔ ان بچوں میں اپنے والدین کی نسبت بہت کم عمری میں اخراجات کم رکھنے اوررقم محفوظ کرنے کی عادت پائی گئی ہے۔
98 فیصد بچے جن کی عمر 10 برس تھی انھوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں معاشی پریشانیوں سے بچنے کے لیے بچت کر رہے ہیں تاکہ وہ یہ رقم اپنے برے وقتوں میں استعمال کر سکیں جبکہ بچوں کی نسبت صرف 15فیصد والدین نے بتایا کہ انھوں نے بچت کی عادت 15 برس کی عمر سے قبل شروع کر دی تھی ۔
بچوں کے مطابق وہ اپنے ہفتہ وار یا ماہانہ جیب خرچ میں سے ایک حصہ پہلے سے ہی محفوظ کر لیتے ہیں جبکہ 10 فیصد بچے اپنا پورا جیب خرچ ہی محفوظ کر تے ہیں ۔
جائزے میں شامل 11فیصد بچوں نے بتایا کہ ، وہ ان پیسوں سےاعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ 11 فیصد ہی بچوں نے کہا کہ وہ اس رقم کومستقبل میں نیا گھر خریدنے پر خرچ کریں گے۔ 6 فیصد بچوں کے مطابق وہ اپنی بچت سے ایک اچھی کار خریدیں گے۔ اسی طرح 2 فیصد بچے بچت سے اپنے لیے ایک کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس جائزے میں شامل 68 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ اپنے کھلونے یا وڈیو گیمز خریدنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح ہر10 میں سے 7 بچوں نے کہا کہ وہ پینشن کے بارے میں جانتے ہیں جبکہ 10 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ 50سال کی عمر میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیں گے ۔
آکسفورڈ یونیوسٹی کے معاشیات کے پروفیسر جین ہمفریز نے اس جائزے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ، ان بچوں نے ایک ایسے وقت میں اسکول شروع کیا ہے جب برطانیہ میں معاشی فضا سازگار نہیں ہے لہذا حکومت کی کٹوتیوں کی منصوبہ بندی سے ان میں بھی یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ بچت ایک دانشمندانہ سوچ ہے جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کو پورا کرنے میں ان کی مدد کرے گی ۔
گذشتہ ماہ برطانیہ میں صارفین کے ایک گروپ ’وِچ‘ کی جانب سے ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق برطانیہ میں50 لاکھ افراد معاشی بد حالی میں مبتلا ہیں۔
اس جائزے میں شامل ہونے والے ہرپانچ میں سے ایک فرد کا کہنا تھا کہ ، وہ اپنی ماہانہ آمدنی کو کھینچ تان کر بھی کھانے پینے کے اخراجات ، بل اور مکان کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا لہذا ہر ماہ انھیں اوور ڈرافٹ ،کریڈٹ کارڈ اور قرضوں کی مدد سے گھریلو اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں ۔
68 فیصد افراد کی رائے میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان کی آمدنی محدود ہے۔ اسی طرح 84 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ دن بدن قرض اور کریڈٹ کارڈ کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں ۔31 فیصد خواتین نے کہا کہ انھوں نے اپنی روزمرہ ضروریات کو بہت محدود کر لیا ہے۔
معاشی صورت حال جہاں بہت سے خاندانوں پر اثر انداز ہورہی ہے وہیں بچے بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں جنھیں والدین کی پریشانی اور فکر نے وقت سے پہلے ہی سمجھدار بنا دیا ہے۔ ان بچوں نے اپنے آنے والے کل کی منصوبہ بندی آج سے ہی شروع کر دی ہے ۔
معاشی بحران کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں میں بچت کا رجحان جاننے کے بارے میں ایک برطانوی مالیاتی ادارے نے جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق برطانیہ میں کم عمر بچوں کی ایک بڑی تعداد بچت کر رہی ہے ۔
برطانوی مالیاتی ادارے اسکاٹش وڈوز کے ایک جائزے میں 2 ہزار بچوں اور والدین کو شامل کیا گیا۔ بچوں نے بچت کے حوالے سے اپنی ترجیحات کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنے جیب خرچ کا ایک حصہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ بچوں کا کہنا تھا کہ اپنی بچت سے وہ مستقبل میں یونیورسٹی کی ٹیوشن فیس، گھر اور نیا کاروبارکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسکاٹش وڈوزکے مطابق بچوں میں بچت کا رجحان سب سے زیادہ 10برس کی عمر کے بچوں میں نظر آیا ہے۔ ان بچوں میں اپنے والدین کی نسبت بہت کم عمری میں اخراجات کم رکھنے اوررقم محفوظ کرنے کی عادت پائی گئی ہے۔
98 فیصد بچے جن کی عمر 10 برس تھی انھوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں معاشی پریشانیوں سے بچنے کے لیے بچت کر رہے ہیں تاکہ وہ یہ رقم اپنے برے وقتوں میں استعمال کر سکیں جبکہ بچوں کی نسبت صرف 15فیصد والدین نے بتایا کہ انھوں نے بچت کی عادت 15 برس کی عمر سے قبل شروع کر دی تھی ۔
بچوں کے مطابق وہ اپنے ہفتہ وار یا ماہانہ جیب خرچ میں سے ایک حصہ پہلے سے ہی محفوظ کر لیتے ہیں جبکہ 10 فیصد بچے اپنا پورا جیب خرچ ہی محفوظ کر تے ہیں ۔
جائزے میں شامل 11فیصد بچوں نے بتایا کہ ، وہ ان پیسوں سےاعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ 11 فیصد ہی بچوں نے کہا کہ وہ اس رقم کومستقبل میں نیا گھر خریدنے پر خرچ کریں گے۔ 6 فیصد بچوں کے مطابق وہ اپنی بچت سے ایک اچھی کار خریدیں گے۔ اسی طرح 2 فیصد بچے بچت سے اپنے لیے ایک کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس جائزے میں شامل 68 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ اپنے کھلونے یا وڈیو گیمز خریدنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح ہر10 میں سے 7 بچوں نے کہا کہ وہ پینشن کے بارے میں جانتے ہیں جبکہ 10 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ 50سال کی عمر میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیں گے ۔
آکسفورڈ یونیوسٹی کے معاشیات کے پروفیسر جین ہمفریز نے اس جائزے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ، ان بچوں نے ایک ایسے وقت میں اسکول شروع کیا ہے جب برطانیہ میں معاشی فضا سازگار نہیں ہے لہذا حکومت کی کٹوتیوں کی منصوبہ بندی سے ان میں بھی یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ بچت ایک دانشمندانہ سوچ ہے جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کو پورا کرنے میں ان کی مدد کرے گی ۔