چلی کے دارالحکومت سان تیاگو میں پیر کو مظاہرین دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے جو ملکی معیشت کی بگڑتی صورتِ حال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
بعض علاقوں میں ہونے والے مظاہرے کسی ناخوش گوار واقعے کے بغیر جاری رہے جب کہ کچھ علاقوں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔
چلی میں مظاہرے گزشتہ ماہ شروع ہوئے تھے جن میں اب تک تقریباً 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مظاہرے اس دوران شروع ہوئے جب حکومت نے زیرِ زمین چلنے والی ٹرین کے کرایوں کی مد میں اضافہ کیا اور طبّی سہولیات، تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں تبدیلیاں لائی گئیں۔
دوسری جانب چلی کی حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں معاشی بحران مسلسل مظاہروں کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے جس کے ذمہ دار احتجاجی مظاہرین ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران چھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 2 اہلکاروں پر بوتل بم سے حملہ کیا گیا تھا۔
چلی کو لاطینی امریکہ کا ایک پرامن ملک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن 2009 میں آنے والے معاشی بحران اور 2010 کے تباہ کن زلزلے کے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال پر برا اثر پڑا ہے۔
ملک بھر میں جاری مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار سے اب تک 1.4 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
سان تیاگو میں 'سب وے' کی جانب سے کہا گیا ہے کہ احتجاج کے باعث انہیں اب تک 40 کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پرتشدد مظاہروں کے پیشِ نظر چلی میں متوقع دو بین الاقوامی اجلاس بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
مظاہرین پر تشدد کے الزام میں 14 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کے لیے عدالتی احکامات کے منتظر ہیں۔
مظاہروں کے دوران اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گرفتار افراد میں اکثریت طلبہ کی تھی جنہیں حراست میں لینے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی رہا کر دیا گیا۔