کرونا وائرس کی وبا کے پھیلتے ہی جہاں دیگر بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی صحت کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی، وہاں دمے کے مریضوں کو خاص احتیاط کیلئے کہا گیا، کیونکہ کووڈ 19 کی ایک علامت سانس لینے میں دشواری بھی ہے۔
مگر نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیویارک میں، جو امریکہ میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہے، اس وبا سے جو لوگ موت کا شکار ہوئے ان کے اعداد و شمار کی تفصیل میں دمے کے مریضوں کا ذکر نہیں تھا۔
ریاستی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں صرف پانچ فیصد لوگ ایسے تھے جنہیں دمہ بھی تھا۔ حالانکہ، اندازہ یہی تھا کہ چونکہ کرونا وائرس انسان کے سانس کے نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور دمے کے مریضوں کو بھی سانس ہی کی تکلیف ہوتی ہے، اس لئے، انہیں اس سے خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد چوہدری یو سی ایف کالج آف میڈیسن اورلینڈو میں اسسٹنٹ پروفیسر کلینیکل میڈیسن ہیں اور امریکہ میں پاکستانی فزیشنز کی تنظیم، 'اپنا' کے سابق صدر اور کووڈ 19 ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دمے کے مریضوں کو بھی کرونا وائرس سے اتنا ہی خطرہ ہے جتنا باقی لوگوں کو، البتہ ان کی علامتیں ہو سکتا ہے اتنی شدید نہ ہوں۔
ڈاکٹر چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دمے کے مریضوں کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے اور زیادہ تر اس کی وجہ کوئی الرجی ہوتی ہے، جس سے ان کی سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں، جسے دمے کا اٹیک کہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کو بھی سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، مگر ایسا صرف دس فیصد مریضوں میں دیکھا گیا ہے، جبکہ باقی نوّے فیصد مریضوں کو صرف بخار ہوتا ہے اور جسم میں درد ہوتا ہےاور بعض کو پیٹ کی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب وائرس پھیپھڑوں پر اثر ڈالتا ہے تو خطرہ دمے کے مریضوں اور دیگر مریضوں میں یکساں ہوتا ہے۔ لیکن، صرف ایک بات ہے کہ دمے کے مریضوں میں انفیکشن اگر پھیپھڑوں میں چلی جائے تو ان کو یہ حملہ باقی لوگوں کی نسبت سخت ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو لوگ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں انہیں بھی دمے سے ملتی جلتی بیماری ہوتی ہے اور انہیں بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
نیویارک میں جن لوگوں کو کووڈ 19 سے زیادہ خطرہ ہوا ان میں بھی باقی مقامات کی طرح ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول اور دل کے امراض میں مبتلا لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گردوں کی بیماری، کینسر اور کنجیسٹیو ہارٹ فیلئیر کے مریض بھی، البتہ سانس کی بیماریوں کے مریضوں کا نمبر ساتواں ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، Lenox Hill Hospital میں پلمنالوجسٹ، ڈاکٹر بشریٰ مینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے کووڈ 19 کے 800 مریضوں کا علاج کیا ہے اور ان کے پاس دمے کے مریض زیادہ نہیں آئے، بلکہ موٹاپے، شوگر اور دل کے مریض زیادہ آئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کسّی می فلوریڈا میں اوسیولا ریجنل میڈیکل سنٹر میں ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر ساجد چوہدری کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے اموات کی شرح دو سے تین فیصد تک ہے اور مریضوں کی عمر کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بعض دفعہ یہ بیماری نوجوانوں میں اتنی شدت پکڑ لیتی ہے کہ ان کو وینٹیلیٹر پر جا نا پڑ جاتا ہے اور ان میں سے کچھ لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ اور جو معمر ہیں ان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ ہم سب کیلئے نئی بیماری ہے۔ جب اعداد و شمار جمع ہوں گے توہی تجزیہ کیا جا سکے گا اور مصدقہ نتائیج حاصل ہوں گے۔
امریکی نیوز نیٹ ورک، سی این این کے مطابق، طبی ماہرین کہتے ہیں کہ دمے کے مرض کی ایک ہسٹری ہوتی ہے اور یہ تو ہو سکتا ہے کہ دمے کے مریض کو کووڈ 19 لاحق ہو جائے، مگر یہ نہیں ہوگا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے مریض کو دمہ ہو جائے۔