ماہرین نے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ایک کام کی بات بتائی ہےجن کا کہنا ہے کہ امتحان کی تیاری کے لیے رات رات بھر جاگ کر مطالعہ کرنے کا طریقہ آپ کو کامیاب بنانے کا فارمولا نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ نئی تحقیق کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قلیل مدت کی یادوں کو طویل مدتی یاداشت میں تبدیل کرنے کا نظام اس وقت زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے جب ایک شخص سو رہا ہوتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا یہ عمل دماغ میں کس طرح سے کام کرتا ہے یہ اب بھی ایک سر بستہ راز کی طرح ہے۔
علم حیاتیات سے وابستہ امریکی محققین نے اپنے مطالعے میں لکھا کہ زیادہ تر جانور جن میں مکھی سے انسان تک نیند سے محروم ہونے پر بھلکڑ ہو جاتے ہیں یعنی ان کی یاداشت نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہے۔
ہمارا مطالعہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ نیند، یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت کو بڑھانےمیں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نتیجہ اس نظام کی وضاحت کرتا ہے جس کے ذریعے نیند اور حافظے کے نظام کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
ماہرین نے لکھا کہ سائنس دانوں سے حاصل شدہ عام معلومات کے مطابق نیند ،یاداشت اور سیکھنے کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔
لیکن اس نتیجے سے لوگوں میں دو قسم کی رائے پیدا ہوئی ہے ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ جو نظام نیند کو فروغ دیتا ہے وہی یاداشت کو بھی محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔
اس حوالے سے ایک دوسری سوچ کہتی ہے کہ کیا یہ دو مختلف نظام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؟
دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حافظے کا نظام رات میں اس لیے زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے کیونکہ اس وقت دماغ پر سکون ہوتا ہے جس کی وجہ سے نیورانز (عصبی خلیات) کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور دماغ نیند میں اسے دہراتا ہے جو وہ دن بھر سیکھتا ہے۔
یا یہ کہ پھر اصل میں یاداشت کے نیورانز ہمیں نیند کی طرف راغب کرتے ہیں۔
میسا چوسٹس میں برانڈئیس یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ ہمارے دماغ میں ابتدائی معلومات کو حافظے میں مضبوط بنانے کا نظام سائنسی اصطلاح میں 'میموری کنسولیڈیشن' کہلاتا ہے اور نیند اس نظام کو فعال بناتی ہے۔
برانڈئیس یونیورسٹی کے محققین پاؤلا ہینس اور بیتھنی کرسٹ مین نے گریفتھ یونیورسٹی لیبارٹری میں کئے جانے والے تجزیے کے بعد دوسرے نتیجے کو درست قرار دیا ہے یعنی دونوں نظام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
جرنل آف ای لائف میں شائع ہونے والے 'برانڈئیس یونیورسٹی سائنس اینڈ ریسرچ بلاگ' کے مطابق محققین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پھل مکھی میں ایک مخصوص قسم کے نیورانز کے گروپ 'پی ایم ڈی ' یا معروف میموری کنسولیڈیٹرز پر رکھی ہے ۔
ڈاکٹر کرسٹ مین لکھتی ہیں کہ جب دماغ میں یاداشت سے متعلق سرگرمیاں انجام دینے والے نیورانز فعال ہوتے ہیں، مکھیاں اس وقت زیادہ سوتی ہیں اور جب وہ غیر فعال ہوتے ہیں تو وہ بھنبھنانا شروع کر دیتی ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ مکھیوں میں یادوں کو محفوظ رکھنے کا نظام مکھیوں کو سلانا کا سبب بنتا ہے۔
ڈاکٹر ہینس نے کہا کہ ''یہ عمل مکھی کے دماغ کے اس حصے میں ہوتا ہے جسے 'مشروم باڈی' کہا جاتا ہے جو کہ مکھیوں میں یاداشت کو محفوظ رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے اور یہ وہی حصہ ہے جو مکھیوں کو جگانے کا بھی ذمہ دار ہے ''۔
ہمارے دماغ میں یاداشت سے متعلق حصہ 'ہیپو کیمپس' سرخ رنگ میں نمایاں ہے جو ہماری یادوں کو محفوظ رکھتا ہے اور سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ہماری قلیل مدتی یادوں کو طویل مدتی یادوں میں تبدیل کرنےکا عمل دماغ کے اسی حصے میں ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر کرسٹ مین نے لکھا کہ ''یہ بالکل ایسا تھا جیسے مشروم باڈی کا ایک حصہ کہہ رہا ہو کہ جاننے اور سیکھنے کے لیےجاگتے رہو اور تھوڑی دیر بعد ڈی بی ایم نیورانز اس حصے کو دبانے کے لیے سگنل بھیجتے ہیں کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ اگر بعد میں اسے یاد رکھنا ہے تو تمھیں اب نیند کی ضرورت ہے''۔
ڈاکٹر کرسٹ مین کہتی ہیں کہ ''مکھیوں میں نیند اور یاداشت ایک سادہ نظام سے جڑا ہے جبکہ یہ جاننے کے بعد کہ مکھیوں میں نیند اور یاداشت کا عمل ایک دوسرے کے ساتھ ہے، محققین انسانوں میں اس نظام کی تلاش کو محدود کر سکتے ہیں۔