مصری معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکی امداد کی پیش کش

ا

مصر کے سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی افزائش کی شرح اور سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو سخت دھچکا پہنچا ہے
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے مصر کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے، جس دوران اُنھوں نےتکرار میں الجھے ہوئےسویلین اور فوجی قائدین سےبات چیت کے دوران اقتدار کی جاری رسہ کشی میں کھل کر کسی کی طرفداری کیے بغیر مصر کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکی امداد کی پیش کش کی ہے۔

امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی تجویز اتوار کے دِن قاہرہ میں ہلری کلنٹن کی مصر کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطوی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں زیر غور آئی۔

عہدے داے نے بتایا کہ طنطوی نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا کہ مصر کی معیشت کو بحال کرنا ملک کی اولین ترجیح ہے۔

امریکی امداد کی تفصیلات کا انکشاف ہلری کلنٹن نے ہفتے کے روز مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی سے بات چیت کے دوران کیا، جنھوں نے گذشتہ ماہ اپنا عہدہ سنبھالا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار اسکوٹ اسٹیرئنس نے، جو وزیر خارجہ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں، بتایا ہے کہ قرضے میں چھوٹ دینا امریکی پیکیج کا ایک اہم حصہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ صدر مرسی اور فیلڈ مارشل طنطوی کے ساتھ بات چیت کے دوران ہلری کلنٹن نے مصر کی معیشت کی استعداد بڑھانےمیں امریکی کردارکے بارے میں گفتگو کی۔ مصر کے سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی افزائش اور سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدن کو سخت نقصان پہنچاہے۔

اِس لیے امریکی صدر براک اوباما نے ایک ارب ڈالر تک کے قرضے کی چھوٹ پر مبنی ایک پیکیج تجویز کیا ہے، طنطوی نے کہا کہ دراصل یہی اب ایک اولین ترجیح ہے جس کی مصر کو ضرورت ہے، تاکہ معیشت میں بہتری لائی جاسکے۔
امریکی امداد کی دیگر تجاویز میں مصر کی چھوٹے اور متوسط سطح کے کاروباروں کے لیے چھ کروڑ ڈالر مختص کرنا اور نجی شعبے کے لیے قرضہ جات کی ضمانت کی غرض سے 25کروڑ ڈالر دینا شامل ہیں۔ اسٹیرئنس نے کہا کہ قرضہ جات کے وسیع تر پیکیج کی شرائط طے کرنے کے لیے مصر کو امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنی ہوگی، لیکن یہ عمل اُس وقت تک شروع نہیں ہوسکتا جب تک مسٹر مرسی اپنی کابینہ تشکیل نہیں دیتے۔

امریکہ محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ ہلری کلنٹں نے طنطوی پر زور دیا کہ مصر کے تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، جس میں خواتین اور اقلیتیں شامل ہیں، ایسے میں جب فوجی قائدین اور صدر مرسی ملک میں عبوری سیاسی دور سے متعلق تنازعات کو طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طنطوی کی زیر قیادت فوجی کونسل نے فوج کی نگرانی میں ہونے والے ملک کے منصفانہ صدارتی انتخابات میں جیت کے بعد، طنطوی کی زیر قیادت فوجی کونسل نے ملک کی قیادت مسٹر مرسی کے حوالے کردی۔ تاہم، مسٹر مرسی کی طرف سے عہدہ سنبھالنے سے کچھ ہی دن قبل فوجی کونسل نےصدارتی اختیارات میں کمی کردی اور ایک منتخب پارلیمان کو موقوف کردیا، جس میں مرسی کے اسلام پسند اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہے۔مسٹر مرسی نے فوج کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی کے دوبارہ اجلاس بلانے کے احکامات جاری کیے۔

اقتدار کی اس رسہ کشی کےباعث مصر کے ساتھ امریکی تعلق میں مشکل پیدا ہوگئی ہے، جو ایک طویل عرصے کا ایک اتحادی رہ چکا ہے جہاں عشروں سے فوجی شخصیات اسلام پسند اپوزیشن تحاریک کو کچلتی رہی ہیں۔

ہفتے کے روز خطاب میں ہلری کلنٹن نے مصر کی فوج پر زور دیا کہ وہ خالصتاً قومی سکیورٹی کا کردار ادا کریں۔ لیکن، ساتھ ہی اُنھوں یہ بھی کہا کہ مکالمے اور سمجھوتوں کی مدد سے خود مصری عوام کوہی اپنی جمہوری پیش رفت کا تعین کرنا ہے، نہ کہ امریکہ نے یہ بات امریکہ نے طے کرنی ہے۔

اتوار کے ملاقات کے بعد طنطوی نے کہا کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل ملک کے قانون ساز اور انتظامی اداروں کی ’عزت ‘کرتی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی اُنھوں نےمتنبہ کیا کہ فوج کسی کو مصر کی حفاظت میں کوتاہی کی اجازت نہیں دے گی۔

ہلری کلنٹن نے کاروبار سے منسلک مصری خواتین کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں محض انتخابات کافی نہیں، بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بات کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اکثریت اقلیت کے حقوق کی نگہبان بنے۔

اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار نے کہا کہ امریکہ تمام مصریوں کے حقوق کی حفاظت چاہتا ہے، جن میں مرد وزن ، مسلمان اور عیسائی سب شامل ہیں، مصر کی منتخب حکومت کے لیے لازم ہے کہ تمام لوگوں کی نمائندگی کرے۔
وزیر خارجہ اتوار کی شام اسرائیل روانہ ہوجائیں گی۔