سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے کنگ فہد اسٹیڈیم میں ہونے والے ریسلنگ مقابلے میں ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (ڈبلیو ڈبلیو ای) کی خواتین سپر اسٹار نتالیہ نیڈہارٹ اور لیسی ایوینز مدِ مقابل تھیں۔
خواتین ریسلرز نے روایتی ریسلنگ کاسٹیومز کے بجائے سیاہ لیگنگز اور ڈھیلی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں جن سے ان کا جسم مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا۔
دونوں خواتین جب اپنے سنہری بالوں کو لہراتی ریسلنگ رنگ میں داخل ہوئیں تو اسٹیڈیم میں بجنے والے میوزک، آتش بازی اور شائقین کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
دونوں ریسلرز کے درمیان دلچسپ مقابلہ ہوا لیکن جیت نتالیہ نیڈہارٹ کے حصے میں آئی۔
نتالیہ نیڈہارٹ کا لیسی ایونز کو ہرانے کے بعد ایک انداز۔
سعودی عرب ان غیر معمولی نوعیت کی تقریبات کے ذریعے اپنے 'قدامت پسندانہ' تشخص کو بدلنے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی حکومت کا یہ اقدام بھی ملک میں انٹرٹینمنٹ پر عائد پابندیوں میں نرمی برتنے کی طرف ایک نیا قدم ہے۔
سعودی عرب میں یہ تبدیلیاں ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی اور سماجی ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہیں جنہیں مغربی ممالک کی جانب سے خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔
سعودی عرب کی قومی آمدنی کا زیادہ انحصار تیل کی فروخت پر ہے۔ لیکن اب حکومت سیاحت کے ذریعے بھی زرمبادلہ کمانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب 2030 تک غیر ملکی سیاحوں کی سالانہ آمد و رفت 10 کروڑ تک لے جانا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت نے خواتین کو مردوں کے کھیل دیکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
خواتین کو خاندان کے مرد سربراہ کی اجازت کے بغیر بیرونِ ملک سفر کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
سعودی عرب نے ملک بھر میں سینما پر گزشتہ 35 برسوں سے عائد پابندی ہٹاتے ہوئے فلموں کی نمائش کی اجازت بھی دے دی ہے۔
سعودی حکومت نامحرم مرد و خاتون کو ایک ساتھ ہوٹل کا کمرہ کرائے پر لینے کی اجازت دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔