فرانس میں اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کا مقصد مسلمان خواتین کے چہرے کے مکمل پردے پر پابندی عائد کرنا ہے ۔اگر یہ بل قانون بن گیا تو عوامی مقامات پر برقعہ یا نقاب پہننے والی خواتین پر ڈیڑھ سو یورو یعنی تقریبا ایک سو پچاسی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاسکے گا ۔ فرانس کے ایک اعلی عدالتی ادارے نے اس قسم کی پابندی کو غیر آئینی قرار دیا ہے ۔ ماہرین کا کہناہے کہ یہ تنازع یورپی ملکوں اور ان کی مسلما ن آبادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
خواتین کے اپنے چہرے کو اسلامی طریقے سے مکمل طور پر ڈھانپ کر باہر نکلنے کی آزادی فرانس میں ایک سال سے متنازع بنی ہوئی ہے ۔ کئی مہینوں کی بحث کے بعد فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی اور ان کی حکومت نے نقاب یعنی برقعے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔آئندہ کچھ مہینوں میں اس بل کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا اور اگر یہ بل منظور ہو گیا تو عوامی مقامات پر یا شاپنگ کے دوران برقعہ پہننے والی خواتین کو صرف سودا سلف کی قیمت ہی نہیں بلکہ نقاب پہننے کا ڈیڑھ سو یورو جرمانہ بھی دینا ہوگا، یعنی امریکی کرنسی میں ایک سو پچاسی ڈالر اور پاکستانی روپوں میں تقریبا پندرہ ہزار پانچ سو اڑتالیس روپے ۔نجات کا تعلق الجیریا سے ہے ۔ یہ کہتی ہیں کہ ایسی پابندی فرانسیسی اقدار کے منافی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جب میں فرانس میں آزادی، برابری ، اور مل کر چلنے کی بات سنتی ہوں تو سب جھوٹ لگتا ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے میں ایک آمریت میں رہ رہی ہوں
دلیل بوبکر پیرس کی ایک مسجد کے سربراہ ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایسی پابندی کی ضرورت ہی نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بڑا نازک موضوع ہے ، ایسی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی پابندی کو چیلنج نہ کیا جائے ۔
2009ء میں صدر سارکوزی نے فرانس کی پارلیمنٹ سے خطا ب کے دوران کہا تھا کہ برقعہ خواتین کو پابند کرنے کی کوشش ہے ، اور فرانس میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔
تارکین وطن سے متعلق امور کے فرانسیسی وزیر ایرک بیسن کے وہ بیانات بھی فرانسیسی اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں جس میں انہوں نے چہرے کے مکمل پردے کو فرانس کی قومی شناخت کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔فرانسیسی عہدیدار بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ عوامی مقامات پرنکلنے والوں کے لئے اپنے چہرے کھلے رکھنا ضروری ہے ۔گو برقعے پر عائد کی جانے والی ممکنہ پابندی کو فرانس کی آئینی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے مگر اس وقت دنیا بھر میں یہی پابندی زیر بحث ہے ۔
ابراہیم ہوپر واشنگٹن ڈی سی میں قائم کونسل آن امیرکن اسلامک ریلیشنز (کئیر )کے ترجمان ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تو شہری اور انسانی حقوق کے معاملے میں آگے کے بجائے پیچھے جانے کی کوشش ہے ۔ جب آپ ایک ایسا قانون بنا رہے ہیں جس کا مقصد صرف ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنانا ہے تو یقینا لوگوں کی تشویش بالکل بجا ہے ۔
ابرہیم ہوپر صدر نکولس سارکوزی کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد مسلمان خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک دلچسپ دلیل ہے کہ ہم آپ کے حقوق آپ سے لے کر آپ ہی کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں ۔ایسی بات کا کوئی مطلب ہی نہیں ۔
مگر فرانس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چہرے کے مکمل پردے کو مسلمانوں کا لباس قرار دینے کو تیار نہیں ۔
ساہم ہابچی ، خواتین کے حقوق کیے لیے کام کرتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ اسلام کا برقعے سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ عورتوں پر جبر اور اسلام میں طالبانائزیشن کی علامت ہے ۔
فرانس میں، جس کی اکثریت آبادی کیتھولک عیسائی ہے ، پچاس لاکھ مسلمان رہتے ہیں ، جو مغربی یورپ کے کسی ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے ۔ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو فرانس بیلجئیم کے بعد وہ دوسرا یورپی ملک بن جائے گا جہاں چہرے کے مکمل پردے پر پابندی عائدہوگی ۔