وائس آف امریکہ کے یوتھ سروے کے بارے میں عام سوالوں کے جوابات اور دیگر بنیادی معلومات یہاں دی جا رہی ہیں۔
یہ معلومات مارکیٹنگ ریسرچ کے ملٹی نیشنل ادارے ’اپسوس‘ کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات پر مبنی ہیں۔ وائس آف امریکہ کا یوتھ سروے اسی ادارے نے کیا ہے۔
کیا صرف دو ہزار افراد سے کیا گیا سروے رائے عامہ کی درست عکاسی کرتا ہے؟
کوئی بھی کمپنی یا ادارہ جب کوئی ایسا سروے کراتا ہے جس سے ایک بڑی آبادی کی رائے جاننا مقصود ہو تو اس میں ہر ایک فرد سے رائے لینا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے صرف چند سو یا چند ہزار افراد کی رائے لی جاتی ہے اور اس کی بنیاد پر عمومی رائے کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔
سروے کے لیے جس تعداد میں افراد سے رائے لی جاتی ہے اسے 'سیمپل سائز' کہتے ہیں۔ مثلاً وائس آف امریکہ کے سروے کے لیے 2050 افراد کی رائے لی گئی۔ یہاں ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ چند ہزار افراد کی رائے کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کیسے کر سکتی ہے؟
وائس آف امریکہ کا یوتھ سروے کرنے والی کمپنی ’اپسوس‘ کے مطابق سیمپل سائز کا آبادی کے حجم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ سیمپل کیسے منتخب کیا گیا ہے۔
سیمپل کا انتخاب ہمیشہ رینڈم یعنی بے ترتیب طریقے سے کیا جانا چاہیے۔ مثلاً آبادی کا کوئی گروہ یا طبقہ اپنے کسی مخصوص رجحان کی بنیاد پر منتخب نہ ہو۔ دوسری چیز یہ کہ سیمپل میں آبادی کے اعتبار سے تمام طبقات کی نمائندگی ہو۔
اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک ایسا ملک ہے جو کئی اعتبار سے متنوع ہے۔ یہاں نوجوان آبادی کا نصف سے زائد ہیں۔ آبادی کی مزید تقسیم کی جائے تو اس میں چاروں صوبے اور ان صوبوں میں دیہی اور شہری کی تقسیم، مختلف عمر کے گروہ، مختلف تعلیمی، سماجی اور معاشی پسِ منظر رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ مرد و خواتین کی نمائندگی بھی شامل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دو ہزار افراد پر مشتمل سیمپل سے متنوع نکتۂ نظر اور تجربات کو درست طریقے سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جسے پاکستان میں عوامی رائے کی نمائندگی کے لیے مارکیٹنگ کی دنیا میں ایک معتبر سیمپل سائز سمجھا جاتا ہے۔
سرویز کی سائنس کے تحت یہ ضروری ہے کہ ’مارجن آف ایرر‘ یعنی غلطی کی گنجائش کو پانچ فی صد سے کم رکھا جائے جب کہ دو ہزار افراد کے سیمپل سائز کے تحت کیے جانے والے سروے میں ’مارجن آف ایرر‘ صرف دو فی صد ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سیمپل کا رینڈم یعنی بے ترتیب طریقے سے انتخاب کرنے سے آبادی میں شامل ہر فرد کے پاس سروے میں شامل ہونے کا یکساں موقع ہوتا ہے جس سے پوری آبادی کی نمائندگی برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
'رینڈم سیمپلنگ' سے کسی تعصب یا جھکاؤ کے اثر انداز ہونے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے اور یہ طریقہ سروے کے نتائج کو بڑی آبادی کے تناظر میں دیکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس لیے اچھی طرح سے ڈیزائن کیا گیا سروے اور دو ہزار افراد پر مشتمل سیمپل مل کر پاکستان میں کسی بھی موضوع پر رائے عامہ کے بارے میں قابلِ اعتماد معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
سائنٹیفک سروے کیا ہوتا ہے؟
سائنٹیفک سروے میں منظم طریقے سے معلومات جمع کی جاتی ہیں۔ کسی بھی موضوع پر رائے جاننے کے لیے پہلے افراد کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر خاص طریقۂ کار سے حاصل کی گئی معلومات سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔
سائنٹیفک سروے میں ریسرچرز ’کوانٹی ٹیٹو ڈیٹا کلیکشن‘ کے طریقۂ کار کو استعمال کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر سوالات تیار کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ڈیٹا حاصل کرتے ہیں۔
سروے کا مقصد ایسی معلومات جمع کرنا ہوتا ہے جو قابلِ اعتماد ہوں اور بڑی آبادی کی نمائندگی کرتی ہوں۔ اس طریقے سے معلومات جمع کرنے کا مقصد کسی موضوع پر تحقیق کرنے والوں کو قابلِ اعتماد ڈیٹا فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کے اخذ کیے گئے نتائج بامعنی اور ٹھوس معلومات پر مبنی ہوں۔
کیا سیاسی رائے جاننے کے لیے ہونے والے سرویز کے بین الاقوامی معیارات بھی موجود ہیں؟
سیاسی رائے جاننے کے لیے کیے جانے والے سرویز سے متعلق کوئی ایسا بین الاقوامی معیار تو موجود نہیں جو پوری دنیا میں یکساں ہو۔ لیکن سروے ریسرچ کے لیے کچھ معروف اداروں کی گائیڈ لائنز اور بیسٹ پریکٹسز ضرور رائج ہیں جن پر بڑے پیمانے پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال ’ایسومار گائیڈلائن آن مارکیٹ، اوپینین اینڈ سوشل ریسرچ اینڈ ڈیٹا اینالیٹکس‘ ہے جو ایسومار یعنی ’یورپین سوسائٹی فور اوپینین اینڈ مارکیٹنگ‘ ریسرچ کی جانب سے دی گئی ہیں۔
ایسومار ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو مارکیٹ، سماج اور رائے عامہ کی ریسرچ میں پیشہ ورانہ اور اعلیٰ معیارات کو فروغ دیتا ہے۔ ایسومار کی گائیڈ لائن میں سیاسی اور سماجی ریسرچ اور سرویز کے لیے کچھ اصول اور تجاویز دی گئی ہیں۔
ان گائیڈ لائنز کی کوئی قانونی حیثیت تو نہیں لیکن بہت سے ریسرچرز اور ادارے سیاسی رائے جاننے کے لیے کیے جانے والے سرویز میں معیار برقرار رکھنے اور سروے کو قابلِ اعتبار بنانے کے لیے ایسومار اور اس جیسے دیگر اداروں کے قواعد پر عمل کرتے ہیں۔
وی او اے کے سروے کا طریقۂ کار کیا تھا؟
یہ سروے ’کوانٹی ٹیٹو ڈیٹا کلیکشن‘ کے طریقۂ کار سے کیا گیا ہے۔ اس طریقے میں اعداد و شمار جمع کر کے ان میں باہمی ربط پیدا کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا شامل ہے۔
کوانٹی ٹیٹو ڈیٹا کلیکشن میں عام طور پر سروے کے لیے ایک منظم سوال نامہ استعمال کیا جاتا ہے جس میں ’کلوزڈ اینڈڈ سوالات‘ ہوتے ہیں۔ یہ ایسے سوال ہوتے ہیں جن میں جواب کے لیے چند آپشنز دیے جاتے ہیں اور رائے دہندہ کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ سوال نامہ شماریاتی تجزیے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سروے کے اس طریقۂ کار کے کئی فوائد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
- اس طریقے سے ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار حاصل ہوسکتے ہیں۔ مخصوص افراد سے حاصل ہونے والی رائے کا بڑے پیمانے پر اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
- یہ معلومات جمع کرنے کا مؤثر اور معروضی طریقۂ کار ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے مفروضوں کو پرکھا جاسکتا ہے اور مختلف گروہوں کا باہمی موازنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
- کوانٹی ٹیٹو طریقۂ کار سے بڑی آبادیوں کا مؤثر جائزہ اور پیٹرنز کی شناخت انتہائی درستگی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔
لیکن اس طریقۂ کار کی کچھ حدود بھی ہیں جن میں سطحی معلومات سامنے آنا، پیچیدہ مسائل کا محدود جائزہ اور رائے عامہ کے انفرادی پہلوؤں کی نشان دہی میں مشکلات شامل ہیں۔
اپسوس نے وائس آف امریکہ کے اس سروے کے لیے ’کمپیوٹر اسسٹڈ ٹیلی فونک انٹرویوز‘ (سی اے ٹی آئی) کا استعمال کیا ہے۔ رائے حاصل کرنے کے لیے ’رینڈم ڈِجٹ ڈائلنگ‘ (آر ڈی ڈی) کے طریقۂ کار کو استعمال کیا گیا تاکہ سروے کے لیے اہل ہر شخص کو منتخب ہونے کا یکساں موقع ملے۔
ٹیلی فونک کنیکٹیوٹی کو مدِنظر رکھتے ہوئے تقریباً 96 فی صد آبادی کو کور کیا گیا ہے۔ اپسوس نے ان افراد کو بھی ذہن میں رکھا جو ممکنہ طور پر رائے دینے سے انکار کر سکتے تھے، جیسے عموماً پاکستان میں اکثر خواتین ٹیلی فون پر کسی اجنبی سے بات نہیں کرتیں اور اسی طرح کچھ اقلیتی گروہ بھی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سروے میں رائے دہندگان کا کوٹا مختص کر دیا گیا (یعنی آبادی کے اعتبار سے ہر طبقے کی نمائندگی کے لیے کم از کم انٹرویوز کی تعداد مقرر کی گئی)۔ سروے مکمل ہونے کے بعد اسے صوبوں، صنف اور اقتصادی طبقات کے لحاظ سے پرکھا گیا تاکہ سروے کے اعداد و شمار کو آبادی کی تقسیم کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔
سروے کے سیمپل (رائے دہندگان) کا انتخاب کیسے کیا گیا؟
سروے ’کمپیوٹر اسسٹڈ ٹیلی فونک انٹرویوئنگ‘ (سی اے ٹی آئی) کے طریقۂ کار کے تحت مکمل کیا گیا۔ اس طریقۂ کار میں اپسوس نے ’رینڈم ڈِجٹ ڈائلنگ‘ (آر ڈی ڈی) سافٹ ویئر استعمال کیا۔ یہ سافٹ ویئر رائے دہندگان کی غیر جانب دارانہ سلیکشن یقینی بنانے کے لیے نمبر ڈائل کرنے والے شخص کو صرف فون نمبر کا ابتدائی کوڈ منتخب کرنے کا آپشن دیتا ہے۔ (مثلاً 0333، 0306، 0345 وغیرہ)۔ باقی نمبرز سافٹ ویئر کے ذریعے رینڈم طریقے سے ڈائل ہوتے ہیں۔
آر ڈی ڈی سافٹ ویئر کسی دوسری کال پر مصروف اور بند نمبروں کو کال نہیں کرتا اور یقینی بناتا ہے کہ صرف جو کال موصول ہو، اسے ہی سیمپل کا حصہ بنایا جائے۔
آر ڈی ڈی کے ساتھ ہی ایک ڈائمینشنز سافٹ ویئر بھی کام کرتا ہے جو کامیاب اور ناکام ہونے والی کالز کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اس فیچر کے ذریعے ریکارڈڈ کالز کو ڈیٹا سے میچ کر کے جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔
کال کنیکٹ ہونے پر اپسوس کے نمائندے نے ایک سوال نامے کے ذریعے رائے دہندہ کی اسکریننگ کی کہ آیا وہ سروے کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں اور اس کی رائے لینے کے لیے انٹرویو کی اجازت حاصل کی۔ اگر رائے دہندہ سروے کے معیار پر پورا اترا اور اس نے انٹرویو کی اجازت دی تو اس سے سروے سے متعلق سوالات کیے گئے۔
اسی طریقۂ کار کے تحت جب سیمپل کلیکشن ایک مخصوص شرح پر پہنچ جاتی ہے (جیسے سروے 50 فی صد مکمل ہو جائے) تو سیمپل کا ابتدائی جائزہ لیا جاتا ہے اور ان طبقوں کی شناخت کی جاتی ہے جن کی رائے کم لی گئی ہو یا شامل نہ ہوئی ہو۔ اگر ایسا کچھ سامنے آتا ہے تو اپسوس اس پہلو کو بھی اپنے اسکریننگ کے طریقۂ کار میں شامل کر کے پہلے سے مختص کوٹے کے مطابق سیمپل مکمل کرتا ہے۔ وی او اے کے سروے کے لیے بھی ان تمام پروٹوکولز پر عمل کیا گیا۔
سروے میں مارجن آف ایرر یا غلطی کی گنجائش کیا ہوتی ہے؟
سروے میں مارجن آف ایرر آپ کو بتاتا ہے کہ سامنے آنے والے اعداد و شمار پوری آبادی کی اصل رائے سے کتنے مختلف ہو سکتے ہیں۔
اگر مارجن آف ایرر کم ہے تو سروے ممکنہ طور پر بالکل درست ہے۔ مارجن آف ایرر اگر زیادہ ہو تو نتائج میں شبہے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ "سروے میں + %3 کے مارجن آف ایرر کے ساتھ یہ بات سامنے آئی ہے کہ 60 فی صد افراد کسی کی حمایت کرتے ہیں" تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نتیجے میں کمی یا اضافے کا امکان تین فی صد ہے یعنی اصل حمایت 57 یا 63 فی صد ہو سکتی ہے۔"
بعض اوقات سروے غلط ثابت کیوں ہوتے ہیں؟
سروے کے نتائج عموماً مختلف وجوہ کی بنا پر غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
نان ریسپانس بایس: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی سروے میں کسی خاص گروپ سے تعلق رکھنے والے زیادہ افراد شامل ہوجائیں جس کی وجہ سے سروے کے نتائج متاثر ہوتے ہیں۔
سوشل ڈِزائریبلٹی بایس: اگر سروے کے رائے دہندگان کسی معاشرتی چلن کی وجہ سے اپنی اصل رائے ظاہر نہ کریں اور وہ جواب دیں جو معاشرے میں زیادہ مقبول ہو تو اس سے بھی نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔
ریکال بایس: یعنی اگر سروے میں شامل لوگ ماضی کے واقعات کو صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں یا انہیں پرانی چیزیں یاد نہ آئیں تو اس سے بھی نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔
سروے کی درستی اور مطابقت پر وہ ٹائمنگ اور پسِ منظر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے جن میں سروے کیا جا رہا ہو۔
سروے فٹیگ: یعنی اگر سروے میں شریک لوگ کچھ دیر بعد یا زیادہ سوالات کی وجہ سے دل چسپی کھو دیں اور سوچ سمجھ کر جواب دینے کے بجائے جلدی میں کوئی بھی جواب دے دیں۔
اس کے علاوہ اعداد و شمار کی اونچ نیچ بھی سروے کے نتائج میں خامیاں پیدا کر سکتی ہے اور بالخصوص چھوٹے سیمپل سائز کے سروے میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
ظاہری طور پر متضاد آرا یا سروے کے نتائج کی تشریح کیسے کی جائے؟
سروے کے نتائج میں ایسے اعداد و شمار سامنے آنا عام ہے جو منطق یا عام تاثر کے خلاف یا متضاد نظر آتے ہیں۔ لیکن کسی بھی تحقیق سے نتائج اخذ کرنے کے لیے بہت احتیاط اور باریک بینی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی انتہائی احتیاط اور باریک بینی سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اس عمل میں مرکزی فیلڈ ورک کے مرحلے پر جانے سے پہلے سروے کا پری ٹیسٹ کرنا بھی شامل ہے۔ مرکزی فیلڈ ورک کے دوران غیر معمولی کوالٹی کنٹرول رکھا جاتا ہے اور قابلِ اعتماد نتائج کے لیے اعلیٰ ترین معیارات لاگو کیے جاتے ہیں۔ کوالٹی کنٹرول کے ان سخت اقدامات کو انجام دینے کے بعد ہی ڈیٹا سیٹ کو استعمال کے لیے درست سمجھا جاتا ہے۔
ایک تحقیقی ادارے کے طور پر اپسوس سروے کے تضادات یا غیر منطقی پہلوؤں کے باوجود غیر جانب داری سے ڈیٹا کی رپورٹنگ کا پابند ہے۔ شفافیت برقرار رکھنے کے لیے اس کی ذمے داری ہے کہ نتائج جوں کے توں پیش کیے جائیں، چاہے وہ ابتدائی توقعات سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہوں۔