واشنگٹن —
فلسطینی شدت پسند گروپ کی پچیسویں سالگرہ کےموقع پر غزہ میں اپنےخطاب میں، حماس کے راہنما خالد مشعل نے اِس بات کا عہد کیا ہے کہ کسی مزید علاقے سے دستبردار نہیں ہوں گے اور نہی یہودی ریاست کو تسلیم کیا جائے گا۔
غزہ شہر میں ایک لاکھ سے زائد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، مشعال نے کہا کہ بحیرہٴ روم سے لے کر اُردن دریا تک کا فلسطین کا علاقہ فلسطینی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سرزمین اسلام اور عربوں کی میراث ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ہتھیاربند جدوجہد ہی فلسطینیوں کے حقوق کےحصول کا ایک واحد ذریعہ ہے۔
ریلی میں شریک حماس کے حامیوں کا جمِ غفیر جو شدت پسند گروپ کی نمائندگی کررہا تھا، سبز پرچم اٹھا رکھے تھے اور حماس کے حق میں نعرے بلند کیے۔ عینی شاہدین نے مشعل کی تقریر کو تاریخی قرار دیا۔ حماس کے راہنما کا غزہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔
مشعل 1956ء میں اُس علاقے میں پیدا ہوئے جو اب مغربی کنارے میں واقع ہے، اور اُن کا خاندان 1967ء کی چھ دن جاری رہنے والی اسرائیل اور عرب فورسز کے درمیان چھڑنے والی جنگ کے بعد وہاں سےنکل گیا تھا۔ سنہ 2004میں جب حماس کے ایک لیڈرکو قتل کیا گیا، تب سے اب تک اُنھوں نے حماس کے نیم فوجی دستوں اور سیاسی تنظیم کی قیادت سنبھالی ہوئی ہے۔
مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان حالیہ برسوں کی شدید ترین لڑائی بند ہونے کو محض دو ہفتے گزرے ہیں کہ ہفتے کے روز یہ ریلی نکالی گئی۔ مشعل نے آٹھ دِن تک جاری رہنے والے اِس تنازعے کے دوران مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنے پر فلسطینی جدوجہد کو مبارکباد پیش کی۔
حماس کے جشن کے موقعے پر متعدد ممالک نے اپنے وفود بھیجے۔ حماس، جِس نے 2007ء میں اپنے متحارب فلسطینی گروپ ’فتح‘ کو شکست دی، غزہ کی پٹی میں حکمراں ہے۔ اِس وقت ’فتح‘ مغربی کنارے میں حکومت کی قیادت کرتا ہے۔
مشعل نے جمعے کو مصر کی طرف سے سرحد عبور کرکے پہلی بار غزہ میں قدم رکھا۔
حماس کے راہنما نے 1975ء کے مختصر دورے کے بعد، 45سال تک ملک بدر رہنے کے بعد اسرائیل کی نظرداری والے فلسطینی علاقے کا صرف ایک بار دورہ کیا ہے۔ ماضی میں وہ قطر سے اِس اسلامی شدت پسند تحریک کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
سنہ 1997میں اردن میں اسرائیلی گماشتوں کی طرف سےکی گئی ایک سازش میں مشعل قتل ہوتے ہوتے بچے تھے، جب اُن کے کان میں مہلک زہر ڈال دیا گیا تھا۔ اُن کی جان بخشی تب ہوئی جب بین الاقوامی ثالثوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کو اُنھیں تریاق دیے جانے پر قائل کیا۔
اسرائیل اور مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد گروہ شمار کرتے ہیں۔
غزہ شہر میں ایک لاکھ سے زائد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، مشعال نے کہا کہ بحیرہٴ روم سے لے کر اُردن دریا تک کا فلسطین کا علاقہ فلسطینی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سرزمین اسلام اور عربوں کی میراث ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ہتھیاربند جدوجہد ہی فلسطینیوں کے حقوق کےحصول کا ایک واحد ذریعہ ہے۔
ریلی میں شریک حماس کے حامیوں کا جمِ غفیر جو شدت پسند گروپ کی نمائندگی کررہا تھا، سبز پرچم اٹھا رکھے تھے اور حماس کے حق میں نعرے بلند کیے۔ عینی شاہدین نے مشعل کی تقریر کو تاریخی قرار دیا۔ حماس کے راہنما کا غزہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔
مشعل 1956ء میں اُس علاقے میں پیدا ہوئے جو اب مغربی کنارے میں واقع ہے، اور اُن کا خاندان 1967ء کی چھ دن جاری رہنے والی اسرائیل اور عرب فورسز کے درمیان چھڑنے والی جنگ کے بعد وہاں سےنکل گیا تھا۔ سنہ 2004میں جب حماس کے ایک لیڈرکو قتل کیا گیا، تب سے اب تک اُنھوں نے حماس کے نیم فوجی دستوں اور سیاسی تنظیم کی قیادت سنبھالی ہوئی ہے۔
مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان حالیہ برسوں کی شدید ترین لڑائی بند ہونے کو محض دو ہفتے گزرے ہیں کہ ہفتے کے روز یہ ریلی نکالی گئی۔ مشعل نے آٹھ دِن تک جاری رہنے والے اِس تنازعے کے دوران مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنے پر فلسطینی جدوجہد کو مبارکباد پیش کی۔
حماس کے جشن کے موقعے پر متعدد ممالک نے اپنے وفود بھیجے۔ حماس، جِس نے 2007ء میں اپنے متحارب فلسطینی گروپ ’فتح‘ کو شکست دی، غزہ کی پٹی میں حکمراں ہے۔ اِس وقت ’فتح‘ مغربی کنارے میں حکومت کی قیادت کرتا ہے۔
مشعل نے جمعے کو مصر کی طرف سے سرحد عبور کرکے پہلی بار غزہ میں قدم رکھا۔
حماس کے راہنما نے 1975ء کے مختصر دورے کے بعد، 45سال تک ملک بدر رہنے کے بعد اسرائیل کی نظرداری والے فلسطینی علاقے کا صرف ایک بار دورہ کیا ہے۔ ماضی میں وہ قطر سے اِس اسلامی شدت پسند تحریک کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
سنہ 1997میں اردن میں اسرائیلی گماشتوں کی طرف سےکی گئی ایک سازش میں مشعل قتل ہوتے ہوتے بچے تھے، جب اُن کے کان میں مہلک زہر ڈال دیا گیا تھا۔ اُن کی جان بخشی تب ہوئی جب بین الاقوامی ثالثوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کو اُنھیں تریاق دیے جانے پر قائل کیا۔
اسرائیل اور مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد گروہ شمار کرتے ہیں۔