چھٹے روز بھی اسرائیل فلسطین لڑائی جاری، شہری ہلاکتوں میں اضافہ

غزہ میں پیر کو ہزاروں فلسطینی شہری ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ان 11 افراد کے جنازے میں شریک ہوئے جو گزشتہ روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
فلسطین کے علاقے غزہ پر اسرائیل کے تازہ حملوں میں مزید 10 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جس کے بعد حالیہ تصادم میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 90 سے تجاوز کرگئی ہے۔

غزہ کے علاقے پر اسرائیل کے میزائل حملوں کا سلسلہ پیر کو مسلسل چھٹے روز بھی جاری رہا۔اسرائیلی فوج کے ایک بیان کے مطابق پیر کو اسرائیلی طیاروں اور میزائلوں نے غزہ میں ایک درجن کے لگ بھگ مقامات کو نشانہ بنایا جن میں غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' سے تعلق رکھنے والی پولیس کے زیرِ استعمال کئی عمارات بھی شامل تھیں۔

اطلاعات کے مطابق تازہ حملوں میں ایک مسلح فلسطینی دھڑے کا مقامی کمانڈر بھی ہلاک ہوا ہے۔اسرائیلی فوج کے دعویٰ کے مطابق حملوں میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی سرنگوں، ہتھیاروں کے ذخیروں اور ان مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں سے فلسطینی جنگجو اسرائیل پر راکٹ فائر کرتے ہیں۔

ادھر فلسطینی مزاحمت کاروں نے حملوں کے جواب میں پیر کو بھی اسرائیل پر درجنوں راکٹ فائر کیے تاہم ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق ان کے میزائل دفاعی نظام 'آئرن ڈوم' نے گنجان آبادیوں کی طرف بڑھنے والے کئی راکٹوں کو فضا میں ہی نشانہ بنا کر تباہ کردیا۔

غزہ کی ایک عمارت میں اسرائیلی حملے کے بعد آگ بھڑک رہی ہے

غزہ میں جلوسِ جنازہ

ادھر غزہ میں پیر کو ہزاروں فلسطینی شہری ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 11 افراد سمیت ان 13 لوگوں کے جنازے میں شریک ہوئے جو گزشتہ روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس موقع پر جنازے کے شرکا نے اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔

واقعے کے بعد 'حماس' نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

تنظیم کے ایک ترجمان سمیع ابو ظہری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل کی فوجی کاروائیاں ناکامی سے دوچار ہورہی ہیں اور اسی لیے اسرائیلی فوجی جھلاہٹ میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

تاہم اسرائیل نے جوابی الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار اپنے اسلحے کے ذخیروں کو محفوظ رکھنے اور اسرائیل پر راکٹ حملوں کے لیے غزہ کے عام شہریوں کو بطورِ ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس جان بوجھ کر اسرائیل میں رہائشی علاقوں پر راکٹ حملے کر رہی ہے۔

قبل ازیں اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج ضرورت پڑنے پر غزہ میں جاری کاروائی میں بڑے پیمانے پر توسیع کے لیے تیار ہے لیکن، ان کے بقول، ان کا ملک تنازع کے سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔

یاد رہے کہ غزہ پر فضائی حملوں کے آغاز کے فوری بعد اسرائیل نے سینکڑوں ٹینکوں اوردیگر بھاری اسلحے سے لیس اپنے ہزاروں فوجیوں کو غزہ کی سرحد کے نزدیک تعینات کردیا تھا جو تاحال علاقے میں موجود ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اس اقدام کا مقصد غزہ پر ممکنہ زمینی حملے کی تیاری ہے۔

اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کے جنازے کا ایک منظر


تنازع کے حل کی کوششیں جاری

دریں اثنا اسرائیل کے صدر شمعون پیریز اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے خصوصی نمائندے اور برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔

ملاقات میں اسرائیلی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ پہ جاری اسرائیلی حملوں کا واحد مقصد وہاں سے ہونے والے راکٹ حملوں کو روکنا ہے۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ٹونی بلیئر نے فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اسرائیلی شہریوں پر غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں کا سلسلہ رک جائے گا۔

ٹونی بلیئر ان کئی عالمی رہنمائوں میں سے ایک ہیں جو گزشتہ بدھ سے شروع ہونے والی اس محاذ آرائی کو روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں خطے کے دورے پر پہنچے ہیں۔

مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے مصری حکام کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت میں بھی کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ پہلے حماس راکٹ حملے روکے جس کے بعد ہی غزہ پر جاری حملے روکے جائیں گے۔

تاہم 'حماس' کے جلاوطن رہنما خالد مشعل نے پیر کو قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جنگ بندی کی جانب پہلا قدم اسرائیل کو اٹھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ اسرائیل نے شروع کی تھی اور اب اسے ختم بھی اسرائیل ہی کو کرنا ہوگا۔