حالیہ دنوں میں قطب شمالی میں گلیشیئر کے ایک ڈھائی سو مربع کلومیٹر ٹکڑے کے ٹوٹ کر الگ ہونے کے واقعے کو اکثر ماہرین ماحولیاتی تبدیلی کو قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سے سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرم موسم، قحط اور سیلابوں کا سب بھی موسمی تغیرات ہیں۔
گرین لینڈ کے پیٹر مان گلیشیئر سے ٹوٹنے والا برف کا ٹکڑا نیویارک کے مرکزی حصے مین ہٹن سے چار گنا بڑا تھا۔ تاہم امریکہ کے نیشنل آئس سینٹر کے ایک عہدے دار جم سیانا کا کہنا ہے کہ قطب شمالی میں ایسا ہونا معمول کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قطب شمالی میں سال کے دوران اس طرح کے دس سے چالیس ہزار گلیشیئر پگھلتے ہیں۔
برف کے اس بڑے ٹکڑے کے ٹوٹنے سے گرین پیس تحریک سے وابستہ میلانی ڈکن تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات دنیا کے موسم میں تبدیلی کی خبر دے رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ معلومات کی کمی کے باعث حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ برف کا یہ ٹکڑا واقعی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹوٹا ہے۔
انہوں نے 2003 کے بعد سے سمندر کے پانی کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا ہے۔
سمندرری علوم کے پروفیسراینڈریس مونچوکا کہنا ہے کہ گلیشیئر کے حوالے سے برسوں کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ برف پگھلنے کا سالانہ اوسط اب بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ عموماً ہوتا ہے۔ یعنی ساٹھ کروڑ کیوبک میٹر سالانہ ۔ ان کا کہنا ہے کہ50 سال میں اتنے بڑے ٹکڑے کا ٹوٹنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ معمول سے ہٹ کر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگ عالمی سطح پر موسمی تغیر کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن میرا موقف اس کے برعکس ہے۔
لیکن ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کمیٹی کے سربراہ کانگریس مین ایڈ مارکی کا کہنا ہے کہ یہ پریشان کن صورتحال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنس دان ہمیں ماحول کی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے ، جنگلات میں آگ بھڑکنے ، قحط اور سیلابوں کے خطرات سے خبردار کرچکے ہیں۔
آج دنیا بھر کے لوگوں کو شدید موسموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی مثال امریکی ریاست کیلی فورنیا میں لگنے والی جنگلوں کی آگ ، روس کا قحط یا پھر پاکستان کے سیلاب سے واضح ہے۔
سوال یہ ہے کہ قطب شمالی کے گلیشیئر پگھلنے سے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
میلانی ڈکن کا کہنا ہے گلیشیئروں کے ٹوٹنے سے برف پگھلنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، جس سے سمندر میں پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
سمندر میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح دنیا بھر کے ساحلوں کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے اور کسی ساحلی پٹیاں غائب ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ تاہم قطب شمالی پر نظر رکھنے والے سائنس دان فی الحال صورتحال کو تشویش ناک قرار نہیں دیتے۔ جم سیانا کا کہنا ہےکہ یہ تقریبا ڈھائی سو کلومیٹر کا رقبہ ہے۔ دنیا بھر کے سمندروں کا رقبہ تقریبا چھتیس کروڑ ایک لاکھ مربع میل بنتا ہے۔ لہذا یہ بہت ہی کم شرح ہے۔