ہماری کہکشاں 'میلکی وے' سے ایک ہزار نوری سال کے فاصلے پر ایک نیا سیارہ پایا گیا ہے جسے ایک کم عمر برطانوی طالب علم نےدریافت کیا ہے۔
اسٹیفورڈ شائر کے رہائشی ٹام ویگ اب تک کسی سیارے کو دریافت کرنے والے سب سے کم عمر فرد بن گئے ہیں۔
کیل یونیورسٹی کے مطابق ٹام ویگ نے 15 سال کی عمر میں سیارہ دریافت کیا تھا، تاہم اس سیارے کے وجود کو ثابت کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا ہے اور اب جب ٹام 17 برس کا ہے تو سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم کے ماہرین فلکیات نے مزید تجزئیے اور مشاہدے کی روشنی میں نتائج کی تصدیق کر دی ہے ۔
ٹام ویگ ’جی سی ایس ای‘ کی تعلیم کے ساتھ کیل یونیورسٹی کے آسٹرو فزکس کے شعبے میں کام کا ابتدائی تجربہ حاصل کر رہا تھا، جہاں اسے بین الاقوامی اسپیس براجیکٹ' وائیڈ اینگل سرچ فار پلانٹ' (ڈبلیو اے ایس پی یا واسپ ) کے محفوظ اعداد و شمار پر نظر ڈالنے کے لیے کہا گیا تھا۔
ٹام نے جلد ہی ایک ستارے کی روشنی کے مدھم ہونے کا ثبوت تلاش کرلیا ،اس نے آسمان کی رات کی تصاویر کے ذریعے ایک ستارے کی روشنی کےاخراج میں کمی دیکھی تھی جو سیارے کے ستارے کے سامنے سے گزرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ۔
سواپ پراجیکٹ کے سربراہ کول ہیلییر نے کہا کہ ٹام کے نتائج کی تصدیق کے لیے چلی میں واقع رصدگاہ میں موجود دوربین استعمال کی گئی، اس کے بعد دریافت کو سیارے کے معیار پر پرکھنے کے لیے جینیوا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف لیج کی جانب سے مطالعہ کیا گیا۔
پروفیسر کول ہیلیر نے دریافت کے بارے میں بتایا کہ ٹام سائنس کے بارے میں جاننے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے لہذا سیارے کی تلاش کے لیے اس کی تربیت کرنا آسان تھا۔
"ٹام ویگ کا سیارہ ہماری کہکشاں سے بہت دور جنوبی ہائیڈرا نامی کونسٹی لیشن (ستاروں کے جھرمٹ یا مجمع نجوم ) میں واقع ہے، یہ اپنے مرکزی ستارے سے قریبی مدار میں گردش کرتا ہے اور ستارے کے گرد اپنا چکر تقریباً دو دن میں مکمل کر لیتا ہے تاہم اسے دوربین کی مدد سے براہ راست نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔"
نیا سیارہ گیسوں کا مرکب گولا ہے اور نسبتاً بڑا ہے یہ حجم کمیئت اور بناوٹ میں نظام شمسی کے سیارے مشتری سے مشابہت رکھتا ہے اسے مشتری کی طرح گرم سیارے کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے ۔
ٹام کی دریافت کا اندراج فہرست میں wasp.142b کے نام سے کیا گیا ہے، جیسا کہ یہ اس فلکیاتی گروپ کی 142 ویں دریافت ہے۔
ٹام کی دریافت کے نام کی تلاش کے لیے بین الاقوامی فلکیاتی یونین ماورائے شمسی نے ایک مقابلہ رکھا ہے اور اب ٹام بھی سیارے کا نام رکھنے میں اپنی تجویز شامل کرنا چاہتا ہے۔
کیپلر نامی دوربین بھی ایک ایسے ہی مشن کو مکمل کر رہی ہے اور دور دراز کے سیاروں کو ستاروں کے سامنے گزرنے پر روشنی کی مدد سے دریافت کر رہی ہے ۔
ٹام کو بچپن سے علم فلکیات میں دلچسپی تھی، سات سال میں اس کے پاس ذاتی دوربین تھی اور جب وہ جی سی ایس ای میں زیر تعلیم تھا تو اساتذہ نے اسے فلکیات کے بارے میں عظیم تر بصارت حاصل کرنے کے لیے کییل یونیورسٹی سے رجوع کرنےکا مشورہ دیا ۔
کییل یونیورسٹی رصد گاہ کے ایک ملک گیر تعاون کا حصہ ہے،جس کانام وائیڈ اینگل سرچ فار پلانٹ ہے ،جو ماورائے شمسی سیاروں کی تلاش کا پروگرام ہے یہ لاکھوں ستاروں کی نگرانی کر رہا ہے ۔
واسپ کی دوربین رات میں آسمان کو کئی بار اسکین کرتی ہے اور تصاویر کی مدد سے دیکھتی ہے کہ ستارہ عام طور پر کتنا روشن ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ستارے کی روشنی میں قدرے کمی ہوتی ہے جب ایک سیارہ زمین اور اپنے مرکزی ستارے کے درمیان سے گزر جاتا ہے۔
ٹام نے کہا کہ یہ میرا تیسرا دن تھا میں ایک ہزار سے زائد محفوظ دستاویزات کا جائزہ لے چکا تھا اور خود کو بیزار محسوس کررہا تھا ۔
ٹام ویگ کے مطابق سواپ کی سافٹ وئیر حیران کن ہے جس کی مدد سے مجھے سینکٹروں اقسام کے ستاروں میں سے اس ایک سیارے کو تلاش کرنے کا موقع ملا ہے۔
ماہرین فلکیات نے 1995 سے اب تک نظام شمسی سے باہر لگ بھگ پانچ ہزار سیارے دریافت کئے ہیں، جن میں سے کچھ سیارے ہماری زمین سے ملتے جلتے ہیں۔
سائنس دان سیاروں کی علامات دیکھنے کے لیے ستاروں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ زمین کے علاوہ بھی زندگی کے آثار کو ڈھونڈا جا سکے۔