مبصرین کے مطابق، افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں اس سال ہونے والے انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد خطے کا سیاسی منظرنامہ، علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال اور خطے میں واقع مختلف ممالک کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا
واشنگٹن —
سال 2014ء میں جہاں ایک طرف نیٹو افواج کا انخلا ہونا ہے، امریکہ اور افغانستان کے درمیان 2014ء کے بعد امریکی فوجیوں کی موجودگی سے متعلق سکیورٹی کے معاہدے پر ستخط ہونے ہیں، تو دوسری جانب، نیا سال بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کے لیے انتخابات کا سال بھی ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال میں پُرامن اور شفاف الیکشن کا انعقاد کہاں تک ممکن ہے؟ افغانستان سے معروف تجزیہ کار، آصف ننگ کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں ایک منتخب حکومت برسرِ اقتدار ہے، جسے بین الاقوامی امداد بھی میسر ہے۔ اُن کے الفاظ میں، آج کا افغانستان 11ستمبر 2001ء والا افغانستان نہیں ہے۔ اُس وقت ہمارے چیلنجز اور تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس سال اپریل میں ہونے والے انتخابات کے لیے، بقول اُن کے، بین الاقوامی برادری کی مدد سے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ افغانستان کی نئی حکومت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں آصف ننگ کا کہنا تھا کہ لوگ انتخابات میں کافی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
امریکی تجزیہ کار عارف انصار کی نظر میں افغانستان کے بہت سے مسائل کا حل آنے والے انتخابات کے نتائج پر منحصر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی لیڈرشپ کا افغان طالبان کے مفاہمی عمل کے بارے میں کیا ردِ عمل ہوگا؛ افغان مفاہمتی عمل کے بارے میں اور پھر الیکشن کے نتائج کے بارے میں کیا ردِ عمل ہوگا۔
افغانستان کی طرح، 2014ء بھارت کے لیے بھی انتخابات کا سال ہے۔ بھارت میں اِس دفعہ کس پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے امکانات زیادہ ہیں اور انتخابات کے نتائج کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ عارف انصار کے بقول، بھارت میں بہت دلچسپ سیاست ہو رہی ہے۔ مودی کے آنے کے امکانات لگتے ہیں۔ ساتھ ہی، ’عام آدمی پارٹی‘ بھی اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔
بھارت کے انتخابات کے ممکنہ نتائج اور پاک بھارت تعلقات پر اِس کے اثرات کے بارے میں پاکستانی تجزیہ کار سجاد میر کا کہنا تھا کہ جب واجپائی منتخب ہوئے تھے، تب بھی ہم سمجھتے تھے کہ اچھا شگون نہیں۔ لیکن، بقول اُن کے، پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے بارے میں اُسی دور میں قدم اٹھائے گئے۔
سجاد میر کے مطابق، کارپوریٹ سیکٹر کا مودی کے پیچھے ہونا ’معنی خیز‘ امر ہے۔
بنگلہ دیش میں جہاں 2014ء کے شروع ہونے سے پہلے ہی بظاہر ایک سیاسی انتشار نظر آرہا ہے، انتخابات کے نتائج کتنے معتبر ہوں گے، امریکی تجزیہ کار، عارف انصار کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے ایسے اقدامات کیے ہیں، مثلاً جماعت اسلامی کے ایک راہنما کو موت کی سزا دینا؛ پھر الیکشن کرانے کا اعلان، جس کا اپوزیشن بائکاٹ کرنے پر بضد ہے۔
مبصرین کے مطابق، افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں اس سال ہونے والے انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد خطے کا سیاسی منظرنامہ علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال اور خطے میں واقع مختلف ممالک کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
افغانستان کی موجودہ صورت حال میں پُرامن اور شفاف الیکشن کا انعقاد کہاں تک ممکن ہے؟ افغانستان سے معروف تجزیہ کار، آصف ننگ کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں ایک منتخب حکومت برسرِ اقتدار ہے، جسے بین الاقوامی امداد بھی میسر ہے۔ اُن کے الفاظ میں، آج کا افغانستان 11ستمبر 2001ء والا افغانستان نہیں ہے۔ اُس وقت ہمارے چیلنجز اور تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس سال اپریل میں ہونے والے انتخابات کے لیے، بقول اُن کے، بین الاقوامی برادری کی مدد سے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ افغانستان کی نئی حکومت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں آصف ننگ کا کہنا تھا کہ لوگ انتخابات میں کافی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
امریکی تجزیہ کار عارف انصار کی نظر میں افغانستان کے بہت سے مسائل کا حل آنے والے انتخابات کے نتائج پر منحصر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی لیڈرشپ کا افغان طالبان کے مفاہمی عمل کے بارے میں کیا ردِ عمل ہوگا؛ افغان مفاہمتی عمل کے بارے میں اور پھر الیکشن کے نتائج کے بارے میں کیا ردِ عمل ہوگا۔
افغانستان کی طرح، 2014ء بھارت کے لیے بھی انتخابات کا سال ہے۔ بھارت میں اِس دفعہ کس پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے امکانات زیادہ ہیں اور انتخابات کے نتائج کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ عارف انصار کے بقول، بھارت میں بہت دلچسپ سیاست ہو رہی ہے۔ مودی کے آنے کے امکانات لگتے ہیں۔ ساتھ ہی، ’عام آدمی پارٹی‘ بھی اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔
بھارت کے انتخابات کے ممکنہ نتائج اور پاک بھارت تعلقات پر اِس کے اثرات کے بارے میں پاکستانی تجزیہ کار سجاد میر کا کہنا تھا کہ جب واجپائی منتخب ہوئے تھے، تب بھی ہم سمجھتے تھے کہ اچھا شگون نہیں۔ لیکن، بقول اُن کے، پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے بارے میں اُسی دور میں قدم اٹھائے گئے۔
سجاد میر کے مطابق، کارپوریٹ سیکٹر کا مودی کے پیچھے ہونا ’معنی خیز‘ امر ہے۔
بنگلہ دیش میں جہاں 2014ء کے شروع ہونے سے پہلے ہی بظاہر ایک سیاسی انتشار نظر آرہا ہے، انتخابات کے نتائج کتنے معتبر ہوں گے، امریکی تجزیہ کار، عارف انصار کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے ایسے اقدامات کیے ہیں، مثلاً جماعت اسلامی کے ایک راہنما کو موت کی سزا دینا؛ پھر الیکشن کرانے کا اعلان، جس کا اپوزیشن بائکاٹ کرنے پر بضد ہے۔
مبصرین کے مطابق، افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں اس سال ہونے والے انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد خطے کا سیاسی منظرنامہ علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال اور خطے میں واقع مختلف ممالک کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5