بھارت میں گزشتہ دو ماہ سے کسان سراپا احتجاج ہیں اور وہ دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی آباد کی سرحد پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
کسانوں نے یومِ جمہوریہ پر ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ دہلی انتظامیہ نے مظاہرین کو شہر سے متصل سڑکوں پر احتجاج کی اجازت دی تھی۔ تاہم مظاہرین شہر کے اندر داخل ہو گئے۔
پولیس نے دارالحکومت کی جانب بڑھنے والے کسانوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ جس کے جواب میں کسان بپھر گئے اور انہوں نے پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا۔
پولیس اور کسانوں کے درمیان مختلف علاقوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کیں اور کئی اہم شاہراہوں کو ڈمپر، کرینیں اور دیگر بڑی گاڑیاں کھڑی کر کے بند کیا تاکہ مظاہرین شہر میں داخل نہ ہو سکیں۔
منگل کو کسان انتظامیہ کی جانب سے کھڑی کی گئیں تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے دہلی میں داخل ہو گئے۔
دہلی میں کسانوں کے داخلے کے بعد صورتِ حال بے قابو ہونے کی وجہ سے کئی میٹرو اسٹیشنز بند کر دیے گئے۔
انڈیا گیٹ سے چند کلومیٹر کی مسافت پر کسانوں نے پولیس کی ایک بس کو بھی ہائی جیک کیا جب کہ بعض پرتشدد مظاہرین نے اہلکاروں پر تلواروں سے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
کسانوں کی ریلی سے قبل دہلی پولیس اور کسان رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق کسانوں کو یومِ جمہوریہ کی پریڈ ختم ہونے کے بعد دن بارہ بجے ٹریکٹر ریلی نکالنا تھی۔
معاہدے کے مطابق کسانوں کو ریلی کے لیے دہلی سے باہر چار سے پانچ روٹ دیے گئے تھے جسے 'آوٹر رنگ روڈ' کہتے ہیں، کسانوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اس روٹ سے آگے نہیں بڑھیں گے تاہم کسان دہلی میں داخل ہو گئے۔
پولیس کی جانب سے فائر کیے جانے والے شیل مظاہرین واپس اہلکاروں کی جانب اچھال رہے ہیں۔
مظاہرین کی دہلی میں داخلی کے بعد وہاں نظامِ زندگی بری طرح متاثر ہو گیا۔
کسان ٹریکٹروں اور اپنی نجی گاڑیوں میں سوار ہو کر دارالحکومت دہلی میں داخل ہوئے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ زرعی قوانین کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
مظاہرین کا ماننا ہے کہ زرعی قوانین ان کے حق پر ڈاکہ ہیں جب کہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں۔