بھارت میں تقریباً 55 برس پرانے 'ایگریکلچر پروڈیوز مارکیٹنگ کمیٹی قانون' کی رو سے کسان اپنی پیداوار کو ملک کی سرکاری منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں بڑے ادارہ جاتی خریداروں کے استحصال سے بچانا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان بلوں کی منظوری کے بعد کسانوں کو مزید مواقع حاصل ہوں گے۔ کاشت کاروں کو منڈیوں کے ایجنٹوں سے نجات مل جائے گی۔ کمیشن ایجنٹوں کے کردار کا خاتمہ ہو جانے سے کسانوں اور صارفین دونوں کا فائدہ ہو گا۔
حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ زرعی بلوں سے کسانوں کے مفادات متاثر ہوں گے۔ حکومت جس طرح بہت سے سرکاری شعبے نجی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر رہی ہے، اسی طرح وہ اب زرعی شعبے کو بھی کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں بیچنا چاہتی ہے۔
نئے قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ وہ یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ حکومت کی مقرر کردہ کم از کم قیمت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور زرعی شعبہ نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔
زرعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بلوں کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں، کیوں کہ جہاں بھی اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے، وہاں کسانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔
متنازع بلوں کے خلاف جمعے کو تقریباً 300 کاشت کار تنظیموں اور 20 سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں جس کے باعث ملک کے مختلف علاقوں میں ریل اور سڑک کے ذریعے رابطے متاثر ہوئے۔
کسانوں نے ٹریکٹرز اور واٹر ٹینکرز کی مدد سے مرکزی شاہراہیں اور ہائی ویز بند کیں جس سے ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔
بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں بعض کسان احتجاجی طور پر ریلوے ٹریک پر لیٹ گئے جس سے ٹرینوں کی آمد و رفت رک گئی۔
کاشت کاروں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک حکومت ان بلوں کو واپس نہیں لے گی، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
احتجاج کے دوران کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا تھا۔