ادب میری پہلی محبت ہے: کرامت اللہ غوری

Your browser doesn’t support HTML5

کرامت اللہ غوری کی کتاب ’بار ِشناسائی‘ میں انہوں نے اہم پاکستانی شخصیات کے بارے میں اپنے تجربات اور تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ کرامت اللہ غوری صاحب کے مطابق، حکیم سعید جیسی شخصیات ’روز روز نہیں پیدا ہوتیں‘، جبکہ پروفیسر عبدالسلام کو وہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ’ایسا انعام‘ قرار دیتے ہیں، ’جس کی پاکستان قدر نہ کر سکا‘۔ اس انٹرویو کی تفصیل نیچے دی گئی وڈیو میں ملاحظہ کیجیئے۔

(یہ انٹرویو اوپر دی گئی وڈیو میں دیکھیئے)

گذشتہ ماہ واشنگٹن میں کینیڈا کے صاحب ِطرز ادیب کرامت اللہ غوری کی کتاب ’بار ِشناسائی‘ کی تقریب ِرونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ کرامت اللہ صاحب پاکستان کے ایک سابق سفیر ہیں جنہوں نے کویت، الجزائر اور ترکی جیسے ممالک میں سفارت کاری کے فرائض انجام دئیے۔

فارن سروس کے 36 سالوں کے دوران انہیں پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا اور اسی نسبت سے انہوں نے پاکستان کی چند اہم شخصیات کے بارے میں جنہوں نے ملکی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کیے، اپنے تاثرات اور خاکوں کو قلم بند کیا ہے۔

کرامت صاحب کہتے ہیں کہ ان کی کتاب کو پاکستانی پبلشر نے یہ کہتے ہوئے شائع کرنے سے معذرت کرلی تھی کہ ان کے قانونی مشیر نے انہیں یہ کتاب پاکستان سے شائع نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لہذا، کرامت صاحب کو بھارت کا رخ کرنا پڑا اور پاکستان کی اہم شخصیات پر مبنی کتاب کو بھارت سے شائع کرانا پڑا۔۔۔

کرامت صاحب اپنی کتاب کے شائع ہونے کی دلچسپ کہانی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت سے کتاب کے شائع ہونے اور اس کی مقبولیت کے دو ماہ کے اندر اندر یہ کتاب پاکستان سے بھی شائع کی جا چکی تھی۔ پاکستان میں اس کتاب کے اب تک دو ایڈیشن شائع کیے جا چکے ہیں۔

کرامت اللہ کہتے ہیں کہ اپنی کتاب میں انہوں نے جن شخصیات پر خاکے لکھے ہیں، ان میں سے حکیم محمد سعید اور پروفیسر عبدالسلام کی شخصیات نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔ کرامت صاحب کے مطابق، حکیم سعید جیسی شخصیات ’روز روز نہیں پیدا ہوتیں‘، جبکہ پروفیسر عبدالسلام کو وہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ’ایسا انعام‘ قرار دیتے ہیں، ’جس کی پاکستان قدر نہ کر سکا‘۔

کرامت صاحب کہتے ہیں کہ سفارتکاری کے دشت میں 36 برس تک رہنے کے باوجود ان کی ’پہلی محبت و الفت‘ اپنے قلم سے ہی ہے۔ بقول اُن کے، ’ایک ایسی محبت‘ جسے وہ چاہیں بھی تو ’ترک نہیں کر سکتے‘۔

کرامت صاحب کے بقول، ’گنگا جمنا کے پانیوں میں، دھلی اردو زبان سے محبت بھی وجود کا ایک حصہ ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ زبان ہزار سال کا وہ تہذیبی ورثہ ہے جس کی حفاظت ہم پر لازم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چند برس قبل کرامت صاحب نے اپنے بیٹے کے ساتھ ملکر کینیڈا میں اردو کے مستبقل کے بارے میں ایک ڈاکومینٹری بنائی تھی جسے کینیڈا کے مقامی چینل سے نشر کیا گیا۔

کرامت اللہ کی بیگم عابدہ کرامت بھی اردو غزل میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں اور خود کرامت صاحب بھی شعر کہتے ہیں۔ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں رہتے ہیں اور آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کرامت صاحب کہتے ہیں کہ اب انکا ارادہ اپنے نامکمل مسودوں کو مکمل کرکے انہیں شائع کرانے کا ہے۔