اقبال بانو کے انتقال سے کچھ روز قبل وائس آف امریکہ کی صفیہ کاظیم نے ان سے ریڈیو کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ ان کی چوتھی برسی کے موقعے پر اس انٹرویو کی چند جھلکیاں۔
اقبال بانو جتنا اچھا گاتی تھیں، اتنی ہی دلکش گفتگو بھی کیا کرتی تھیں۔ دلّی کے مخصوص لہجے میں اپنایت کا اظہار ان کے ہر جملے سے ٹپکتا تھا۔ انکساری اس قدر کہ کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیتیں کہ ہم اپنے عہد کی ایک عظیم گلوکارہ سے مخاطب ہیں۔ ان سے میری ملاقاتیں کئی عشروں پر محیط ہیں یعنی اس زمانے سے جب میں ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھی۔ امریکہ انے کے بعد بھی ان سے وقتاً فوقتاً فون پر رابطہ رہتا۔
اپنے انتقال سے کچھ ہی دن قبل ہم نے ان سے وائس آف امریکہ کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ ہمارے لیے یہ ایک یادگار انٹرویو ہے۔ اس میں انہوں نےاپنے فنّی سفر کا تفصیل سے ذکر کیا۔
اس ریڈیو انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ موسیقی کی دنیا میں کیسے آئیں؟ انہوں نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں ایک ہندو خاندان رہتا تھا جن کی دو بیٹیاں ایک استاد سے گانا سیکھا کرتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر اقبال بانو کو بھی موسیقی کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت ان کی عمر صرف سات آٹھ برس تھی اور وہ تعلیم کے دوران لڑکیوں کے پاس جا کر بیٹھ جاتی تھیں۔ جب استاد نے ان سے گانا سنا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اگر تم گانا سیکھو تو بہت بڑی فنکارہ بن سکتی ہو۔ اقبال بانو کی والدہ کو پہلے تو بیٹی کے گانے پر اعتراض ہوا مگر ان کے شوق کے سامنے انہوں نے ہار مان لی اور گانا سیکھنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد جب استاد چاند خان صاحب نے ان کا گانا سنا تو کہا کہ اس لڑکی کو تو میں اپنا شاگرد بناؤں گا اور اس طرح سے وہ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے لگیں۔
اقبال بانو بتانے لگیں کہ استاد چاند خان صاحب کی شاگردی میں آنے کے بعد ان کے اندر اور زیادہ شوق پیدا ہوا اور وہ محنت سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان دہلی سے لاہور منتقل ہو گیا۔ یہاں اقبال بانو کے پڑوس میں ایک خاتون رہتی تھیں جو ریڈیو پاکستان میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے جب اقبال بانو کا گانا سنا تو انہیں اپنے ساتھ ریڈیو سٹیشن لے گئیں اور کمپوزرز سے ملوایا، جن سے انہوں نے گانا سیکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔
اس کے بعد اقبال بانو کا خاندان ملتان منتقل ہو گیا مگر انہوں نے لاہور ریڈیو سٹیشن سے گانے کا سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی۔ اسی دوران انہیں فلموں میں گانے کی پیشکش بھی ہوئی۔ فلم کے لئے ان کا سب سے پہلا گانا ’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘ تھا۔ شاہنور سٹوڈیو میں ’گمنام‘ فلم کی مہورت اسی گانے سے ہوئی اور پہلا گانا ایک ہی ٹیک میں اوکے ہو گیا۔ اس کے بعد نورجہاں ان کے لئے مٹھائی لے کر آئیں اور کہنے لگیں کہ تم بہت نام پیدا کرو گی۔ یہ 1951 کی بات ہے۔ یہ فلم اتنی مقبول ہوئی کہ دو سال تک سینما ہال میں لگی رہی۔ اس کے بعد ان کا ایک اور گانا ’الفت کی نئی منزل کو چلا‘ ریکارڈ ہوا۔ یہ گیت اس سے بھی زیادہ کامیاب ہوا اور یوں ان کے باقاعدہ گانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اقبال بانو نے بادشاہوں اور ملکوں کے سربراہوں کے سامنے بھی گایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں فارسی بھی آتی تھی۔ ان کے پاس فارسی میں بہتّر غزلیں تیار تھیں۔ اس وقت جشنِ کابل منایا جاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھی وہ کابل جاتیں تو ان کو بہت پذیرائی ملتی۔
اقبال بانو کی گائی ہوئی فیض احمد فیض کی ایک نظم ’ہم دیکھیں گے‘ نے عوام میں بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فیض احمد فیض انہیں اپنی بیٹی کہتے تھے۔ جب انہوں نے ’دشتِ تنہائی میں‘ اور ’ہم دیکھیں گے‘ گایا تو فیض صاحب نے کہا کہ اب میں اپنا کلام کسی اور کو گانے نہیں دوں گا۔ میرا کلام صرف تم گاؤ گی۔
دورِ تغیّرِ جہاں ، اب نہ فیض رہے اور نہ اقبال بانو۔۔ لیکن ان کا فن ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔
اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
اپنے انتقال سے کچھ ہی دن قبل ہم نے ان سے وائس آف امریکہ کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔ ہمارے لیے یہ ایک یادگار انٹرویو ہے۔ اس میں انہوں نےاپنے فنّی سفر کا تفصیل سے ذکر کیا۔
اقبال بانو بتانے لگیں کہ استاد چاند خان صاحب کی شاگردی میں آنے کے بعد ان کے اندر اور زیادہ شوق پیدا ہوا اور وہ محنت سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان دہلی سے لاہور منتقل ہو گیا۔ یہاں اقبال بانو کے پڑوس میں ایک خاتون رہتی تھیں جو ریڈیو پاکستان میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے جب اقبال بانو کا گانا سنا تو انہیں اپنے ساتھ ریڈیو سٹیشن لے گئیں اور کمپوزرز سے ملوایا، جن سے انہوں نے گانا سیکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔
اس کے بعد اقبال بانو کا خاندان ملتان منتقل ہو گیا مگر انہوں نے لاہور ریڈیو سٹیشن سے گانے کا سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی۔ اسی دوران انہیں فلموں میں گانے کی پیشکش بھی ہوئی۔ فلم کے لئے ان کا سب سے پہلا گانا ’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘ تھا۔ شاہنور سٹوڈیو میں ’گمنام‘ فلم کی مہورت اسی گانے سے ہوئی اور پہلا گانا ایک ہی ٹیک میں اوکے ہو گیا۔ اس کے بعد نورجہاں ان کے لئے مٹھائی لے کر آئیں اور کہنے لگیں کہ تم بہت نام پیدا کرو گی۔ یہ 1951 کی بات ہے۔ یہ فلم اتنی مقبول ہوئی کہ دو سال تک سینما ہال میں لگی رہی۔ اس کے بعد ان کا ایک اور گانا ’الفت کی نئی منزل کو چلا‘ ریکارڈ ہوا۔ یہ گیت اس سے بھی زیادہ کامیاب ہوا اور یوں ان کے باقاعدہ گانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اقبال بانو نے بادشاہوں اور ملکوں کے سربراہوں کے سامنے بھی گایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں فارسی بھی آتی تھی۔ ان کے پاس فارسی میں بہتّر غزلیں تیار تھیں۔ اس وقت جشنِ کابل منایا جاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھی وہ کابل جاتیں تو ان کو بہت پذیرائی ملتی۔
اقبال بانو کی گائی ہوئی فیض احمد فیض کی ایک نظم ’ہم دیکھیں گے‘ نے عوام میں بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فیض احمد فیض انہیں اپنی بیٹی کہتے تھے۔ جب انہوں نے ’دشتِ تنہائی میں‘ اور ’ہم دیکھیں گے‘ گایا تو فیض صاحب نے کہا کہ اب میں اپنا کلام کسی اور کو گانے نہیں دوں گا۔ میرا کلام صرف تم گاؤ گی۔
دورِ تغیّرِ جہاں ، اب نہ فیض رہے اور نہ اقبال بانو۔۔ لیکن ان کا فن ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔
اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے نیچے دئیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے۔
Your browser doesn’t support HTML5