ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں امریکہ سے کسی بھی طرح کی مدد لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ وائرس امریکہ کی تیار کردہ سازش ہو سکتا ہے۔
ایرانی رہنما کا یہ بیان اتوار کو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تہران کو امریکی پابندیوں کے سبب بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی اور اپنےخام تیل کی فروخت میں بندشوں کا سامنا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے یہ الزام نوروز کے موقع پر ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں لگایا۔
ایران کے سویلین حکام بھی امریکی پابندیوں پر تنقید کرتے آ رہے ہیں، لیکن ملک کے سپریم کمانڈر نے دنیا بھر میں وبا کی شکل اختیار کرنے والے وائرس سے متعلق ان سازشی نظریات کا انتخاب کیا ہے، جس کے متعلق چینی حکام بھی اظہار کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے لیکن جب یہ بات ہو رہی ہے تو کون آپ کی ادویات پر یقین کرے گا، ہو سکتا ہے کہ آپ کی ادویات اس وائرس کو پھیلانے کا ایک ذریعہ ہوں۔‘‘ ۔
انہوں نے بنا کوئی ثبوت دیے یہ تک کہہ دیا کہ یہ وائرس ایران کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس کے لیے مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ایرانیوں کا جینیاتی ڈیٹا لیا گیا ہے۔
خامنہ ای نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر اورتھراپسٹ اس لیے یہاں بھجوانا چاہتے ہو کہ وہ اس زہر کے اثرات کا خود جائزہ لے سکیں۔
ایرانی سپریم کمانڈر کے ان الزامات کا دنیا بھر میں کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
تاہم ان کے ان الزامات سے پہلے چینی حکومت کے ایک ترجمان لی جان ژاہو نے اس ماہ کے شروع میں اپنی ایک ٹویٹ کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ امریکی فوجی اس وائرس کو ووہان لے کر آئے ہوں۔ چینی ترجمان کے بیان کا بھی کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک سائنسی جریدے نیچر میڈیسن میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ایسا کوئی وائرس لیبارٹریز میں تیار کیا جا سکتا ہے جو کرونا یا سارس جیسا ہو۔
امریکہ کی وفاقی اور ریاستی انتظامیہ بذات خود کرونا وائرس کے حملے سے پریشان ہے اور اس وقت تک 30 ہزار سے زائد افراد کرونا پازیٹو تشخیص ہو چکے ہیں اور تین سو سے زائد ہلاکتیں واقع ہو چکی ہیں۔ نیویارک اور کیلی فورنیا میں نقل و حرکت تقریباً مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔ مارکیٹس کو کئی ٹرلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
ایران کے سپریم کمانڈر نے نورروز کے موقع پر تہران سے براہ راست نشر ہونے والے خطاب میں جب الزامات عائد کیے تو اس وقت تک وہاں 21 ہزار چھ سو کیسز رپورٹ ہو چکے تھے اور ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سولہ سو سے بڑھ چکی تھی۔
ایرانی رہنما کے بیان پرتبصرہ کرتے ہوئے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ الزامات کا رویہ نامناسب ہے اور پوری دنیا کے لیے اس مشکل وقت کو اختلافات کو بھلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
’’ یہ بہت بڑا موقع ہے کہ قومیں ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات ختم کر سکیں اور انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مدد ان کو قریب لے آئے’’۔
ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ بحیثیت ایک مسلمان ملک کے قائد کے بھی، کسی کو آفات میں کسی بھی ملک سے مدد لینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
’’ مسلمان اپنی دینی تعلیمات کی روشنی میں انٹرنیشنلسٹ ہوتے ہیں، عالمگیریت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ کبھی بھی بحرانوں میں مدد دینے یا لینے سے گریز نہیں کر سکتے۔ اس وقت پوری دنیا اور انسانیت خطرے سے دوچار ہے۔ بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، الزامات عائد نہیں کرنے چاہیں‘‘۔
امریکہ کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر کے الزامات پر ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تاہم جب مارچ کے شروع میں چین کی طرف سے اسی نوعیت کا الزام عائد کیا گیا تھا تو جواباً واشنگٹن نے تو سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا تھا البتہ کچھ قدامت پسند اراکین کانگریس نے یہ وائرس چین کی لیبارٹریوں میں تیار کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ اور صدر ٹرمپ بھی اپنے کچھ ابتدائی ٹویٹس میں کرونا وائرس کو چینی یا فارن وائرس کا نام دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس عالمی وبا کے جہاں دنیا بھر میں انسانی صحت اور کاروباروں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہاں دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات پر بھی گہرے اور دور رس اثرات پڑیں گے۔