میلے کا ذکر آتے ہی ذہن میں خوشی، رونق، گہما گہمی اور جگمگاتی جگہ کا تصور ابھرتا ہے جو کہ صحیح ہے لیکن فی زمانہ یہ رونقیں نسبتاً کم ہوتی جارہی ہیں کہ میلوں کا انعقاد بھی اب ویسا نہیں جیسا ایک دہائی پہلے ہوا کرتا تھا۔
ثقافت کا حصہ سمجھے جانے والے یہ میلے اور ان میلوں کا ایک اہم عنصر ’موت کا کنواں‘ بھی قریب المرگ ہوتا چلا جارہا ہے اور اس سے وابستہ لوگ پیٹ کی بھوک مارنے کے لیے زندگی کے کسی اور کنویں میں ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ندیم احمد 15 سال قبل ایک میلہ دیکھنے گئے اور موت کے کنویں میں چلتا موٹر سائیکل انھیں اتنا لبھایا کہ انھوں نے سب کام چھوڑ کر اسے ہی پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔’’یہاں موٹرسائیکلیں ٹھیک کرتا تھا کنویں میں پھر استادوں نے ٹرائی دی اور میں نے موٹر سائیکل اور پھر گاڑی چلانا شروع کی۔ پہلے شوق تھا پھر کاروبار بن گیا۔‘‘
دم توڑتی ہوئی ثقافت کا یہ نمونہ اسلام آباد میں لوک ورثہ میں منعقدہ ایک میلے میں دیکھنے کو ملا۔
میلے کی چکا چوند میں ندیم کی زندگی بھی جگمگاتی رہی لیکن جب ملک میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کی گونج ابھری تو اس میں میلے کی دھوم دم توڑتی گئی۔ ندیم احمد کہتے ہیں کہ وہ دوردراز علاقوں میں لگنے والے میلوں میں جب پہنچتے ہیں تو کبھی مقامی انتظامیہ امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر میلہ ختم کرادیتی ہے تو کبھی اتنے کم لوگ میلہ دیکھنے آتے ہیں کہ ان کا دل نہیں چاہتا کہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں۔
ندیم احمد تو یہ کام چھوڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں کیونکہ ان کے بقول اس میں آمدنی کم اور خطرہ زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اب کام بھی کم ہوگیا ہے۔’’ میں نے اپنی ورکشاپ بنائی ہوئی ہے اور اب اس پر ہی توجہ دے رہا ہوں۔‘‘
موت کا کنواں، سرکس، جھولے، لوک فنکار اور ایسے بہت سے کاموں سے روزی کمانے والوں کا دارومدار انہی میلوں سے جڑا ہے اور یہ لوگ متمنی ہیں کہ زندگی کے ساتھ ساتھ اس ثقافتی روایت کے رنگوں کو پھیکا پڑنے سے بچایا جائے۔