پاکستان میں جنید جمشید سن 80 کی دھائی میں پہلی مرتبہ پی ٹی وی پر ایک ملی نغمہ پیش کرتے نظر آئے۔ اس نغمے کے بول تھے ’دل دل پاکستان۔۔جاں جاں پاکستان‘۔
لوگوں نے اس نغمے کو اس قدر پسند کیا کہ جو بھی اسے ایک بار سنتا اس کا اگلا سوال یہی ہوتا کہ ’دبلا پتلا اور انگریزی اسٹائل رکھنے والا لڑکا کون ہے؟ ‘
جنید انہی دنوں برطانیہ سے نئے نئے پاکستان آئے تھے۔ یہاں آکر انہوں نے ’وائٹل سائنز‘ کے نام سے ایک میوزیکل گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ میں کئی اور گلوکار بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔
اس دور تک پاکستان میں میوزیکل گروپس کا رواج تو ایک طرف، اکثر لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میوزیکل گروپ کیا ہوتا ہے۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ جنید جمشید کا ’’وائٹل سائنز‘‘ پاکستان کا پہلا میوزیکل گروپ یا بینڈ تھا تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
بہت جلد پورا پاکستان ان کے نام اور آواز سے اس قدر آشنا ہوگیا کہ جنید جمشید گھر گھر پہچانے جانے لگے۔ لوگ ان کے البمز کا انتظار کرنے لگے۔ ان کے البمز اور نغمے آتے رہے اور شہرت کی بلندیوں کی جانب بڑھتے رہے ۔
سن 1999ء کے آتے آتے ان کے گیتوں اور آواز کے بارے میں لوگوں کی رائے پختہ ہو گئی کہ اسے اصطلاحاً ’سافٹ پاپ میوزک‘ کہا جانے لگا جبکہ بعد کے برسوں میں لوگ انہیں پاپ سنگر کہہ کر پکارنے لگے۔
جنید نے اس دور میں اپنے لئے ہلکے پھلکے اور رومانی گانے تخلیق کئے۔ اس دور میں آنے والا ان کا البم ’’اس راہ پر۔۔‘‘ اس کی انمٹ مثال ہے۔
اس البم میں ہلکے سروں سے لے کر، اونچے سروں تک اور پاپ سے لے کر کلاسیکل انداز تک کے گانے موجود ہیں۔ البم ’’اس راہ پر‘ ۔۔۔دو میوزک ریکارڈنگ کمپنیز ’وی سی آئی‘ اور’ ایگل گولڈ ‘نے جاری کیا تھا۔
اس البم میں دو اور گلو کاروں سلمان احمد اور فاخر محمود نے ان کا ساتھ دیا تھا جبکہ جنید نے اس البم کے لئے دیگر کئی موسیقاروں کی بھی خدمات حاصل کی تھیں۔ جبکہ اس البم کا بنیادی خیال شعیب منصور کا تھا ۔ شعیب منصور ہی نے انہیں لندن سے پاکستان واپسی پر پی ٹی وی پر متعارف کرایا اور کئی سال تک دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے رہے۔
ان کا پہلا سولو البم ’تنہائی ‘ 1995 میں ریلیز ہوا تھا۔ اس البم میں ان کاساتھ ایک مرتبہ پھر شعیب منصور نے دیا جبکہ موسیقاروں میں بدو اور ارشد محمود شامل تھے۔
اس البم کی ریکارڈنگ کے بارے میں خود جیند جمشید نے وائس آف امریکہ کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اسے انہوں نے لندن کے ایک اسٹوڈیو میں کرائے پر لے کر ریکارڈ کرایا تھا۔ یہ البم 25 جنوری 1995ء کو منظر عام پر آیا تھا۔
جنید نے بتایا تھا کہ البم کی سی ڈی بھی بنی تھی جو اس زمانے میں ایک اہم بات ہوا کرتی تھی۔ جنید کا کہنا تھا کہ سی ڈی کی بدولت ہی البم کو بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک ساتھ ریلیز کرنے کا موقع ملا تھا۔
ان کا ایک اور گیت ’’ہم ہیں پاکستانی، ہم توجیتیں گے ‘‘اسی قدر مقبول ہوا جتنا دل دل پاکستان ہوا تھا۔ یہ دونوں نغمے آج بھی پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر ہیں۔
جنید نے دنیا بھر میں کنسرٹ کئے اور لازوال شہرت حاصل کی مگر 2000ء کے آتے آتے ان کی سوچ بدلنے لگی۔ یہ سوچ کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے پہلے تصوف کا رنگ اختیار کیا اور پھر رفتہ رفتہ پاپ موسیقی سے دور ہوتے چلے گئے۔
نئی صدی کے ابتدائی سالوں میں ہی انہوں نے یکدم موسیقی کو چھوڑ کر نعت خوانی شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کلین شیو کی بجائے داڑھی رکھ لی۔ وہ اسلام کی تبلغ کی جانب مائل ہو گئےاور تبلیغی جماعت کے رکن بن کر ملک کے کونے کونے اور پوری دنیا میں جاکر تبلیغ کرنے لگے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے دانشور کی حیثیت سے جگہ جگہ لیکچرز دینا شروع کر دیئے۔ اسلامی تعلیمات کی ترویج میں لگ گئے اور ٹی وی پر نعت خوانی کے ساتھ ساتھ منقبت، ثنا اور قصیدہ بردہ شریف پڑھنے لگے۔
وہ ٹی وی پر مذہبی پروگرامز کی میزبانی بھی کرتے رہے جبکہ رمضان المبارک اور دیگر دینی تہواروں اور مواقعوں پر وہ پوری پوری ٹرانسمیشن خود کرتے تھے ۔ زندگی کے آخری دس ،پندرہ سال انہوں نے اسلامی مبلغ اور مذہبی دانشور کے طور پر گذارے اور بالاخر سات دسمبر بروز بدھ کی شام وہ چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5