'کراچی آرٹس کونسل' کی 'احمد پرویز گیلری' میں ہونے والی اس نمائش میں سندھ کے لگ بھگ 60 فن کاروں کی 100 تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔
وادی سندھ کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے اور اپنے زر خیز تہذیبی ورثےکے باعث سندھ کی رنگ برنگی اور 'موزائیک آرٹ' سے بھرپور ثقافت اپنی جداگانہ اور نمایاں شناخت رکھتی ہے۔
سندھ کے فن کاروں کی تخلیق میں ہمیشہ اپنی اس قدیمی ثقافت سے وابستگی کا اظہار نمایاں رہا ہے، چاہے وہ فنِ تعمیر ہو،موسیقی ہو یا پینٹنگ ، مجسمہ سازی، خطاطی یا کوئی اور تخلیق۔
اس وابستگی کا ایک بھرپور اظہار کراچی میں بدھ کو شروع ہونے والی ایک نمائش کی صورت میں بھی ہورہا ہے جس میں سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پینٹرز، خطاط اور مجسمہ سازوں کے فن پارے عوامی ملاحظے کے لیے رکھے گئے ہیں۔
'کراچی آرٹس کونسل' کی 'احمد پرویز گیلری' میں ہونے والی اس نمائش میں سندھ کے لگ بھگ 60 فن کاروں کی 100 تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔
ان فن پاروں میں تجریدی آرٹ کے شاہ کار بھی ہیں، مجسمے بھی اور قرآنی آیات پر مبنی خطاطی بھی۔ لیکن جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ وادی سندھ کی ثقافت کے مختلف گوشوں اور دیہی زندگی کے مختلف پہلووں کو نمایاں کرتی آئل پینٹ اور واٹر کلر سے بنی تصاویر ہیں ۔
جنید نواز کا تعلق سندھ کے ضلع میرپور خاص سے ہے اور انہوں نے پینٹنگ کی تعلیم کسی باقاعدہ ادارے سے نہیں بلکہ اپنے علاقے کے ہی مقامی اساتذہ سے حاصل کی ہے۔
نوجوان جنید کا زیادہ تر کام سندھ کی ثقافت پر ہے جس کے لیے انہوں نے 'آئل پینٹ' کا میڈیم استعمال کیا ہے۔ اس سوال پر کہ سندھ کے دیہی اور شہری فن کار کی تخلیق میں کیا بنیادی فرق ہے، وہ کہتے ہیں کہ دیہات کی زندگی اتنی زرخیز ہے کہ شہروں میں رہنے والے اور بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرکے لوٹنے والے کئی فن کار بھی اب 'کلچرل پینٹنگ ' کر رہے ہیں۔
جنید نے اس نمائش میں 'برننگ ڈیزائرز' کے نام سے اپنی دو تخلیقات پیش کی ہیں جن میں دیہی سندھ کی عورتوں کی انتظار کی کیفیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اپنے اس کام کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مغرب کے برعکس مشرق کی عورت اپنی خواہشات کا بے باک اظہار نہیں کرتی اورا نہوں نے اپنی پینٹنگ میں اسی کیفیت کو نمایاں کیا ہے۔
نمائش میں ایک نوجوان مجسمہ ساز سلیم رضا بھی شریک ہیں جن کا بنیادی تعلق کوئٹہ سے ہے تاہم وہ گزشتہ 10 برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔
لاہور کے 'نیشنل کالج آف آرٹس' کے گریجویٹ سلیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے 'ٹیراکوٹا' کی مدد سے اپنی سرزمین کے دکھ اور درد کو زبان دینے کی کوشش کی ہے۔
سلیم رضا کہتے ہیں کہ فن کار کا خلوص اور یقین پتھر اور مٹی کو بھی زبان دے سکتا ہے۔ اپنے آبائی علاقے بلوچستان میں آرٹس کی صورتِ حال سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جہاں لوگ بازار جاتے ہوئے ڈرتے ہوں وہاں فنونِ لطیفہ کی کیا پذیرائی ہوگی؟
گیلری کی کیوریٹر اور نمائش کی منتطمہ حسنہ ناز نے 'وی او اے' کو بتایا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام سندھ کے فن کاروں کی یہ نمائندہ نمائش ہر تین برس بعد منعقد کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ نمائش میں مشہور فن کاروں اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ نئے اور ابھرتے ہوئے فن کاروں کا کام بھی رکھا گیا ہے جن کا انتخاب سینئر پینٹرزپر مشتمل ایک کمیٹی نے کیا ہے۔
اکتوبر کی 25 تاریخ تک جاری رہنے والی اس نمائش کا افتتاح اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو نے کیا۔
سندھ کے فن کاروں کی تخلیق میں ہمیشہ اپنی اس قدیمی ثقافت سے وابستگی کا اظہار نمایاں رہا ہے، چاہے وہ فنِ تعمیر ہو،موسیقی ہو یا پینٹنگ ، مجسمہ سازی، خطاطی یا کوئی اور تخلیق۔
اس وابستگی کا ایک بھرپور اظہار کراچی میں بدھ کو شروع ہونے والی ایک نمائش کی صورت میں بھی ہورہا ہے جس میں سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پینٹرز، خطاط اور مجسمہ سازوں کے فن پارے عوامی ملاحظے کے لیے رکھے گئے ہیں۔
'کراچی آرٹس کونسل' کی 'احمد پرویز گیلری' میں ہونے والی اس نمائش میں سندھ کے لگ بھگ 60 فن کاروں کی 100 تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔
ان فن پاروں میں تجریدی آرٹ کے شاہ کار بھی ہیں، مجسمے بھی اور قرآنی آیات پر مبنی خطاطی بھی۔ لیکن جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ وادی سندھ کی ثقافت کے مختلف گوشوں اور دیہی زندگی کے مختلف پہلووں کو نمایاں کرتی آئل پینٹ اور واٹر کلر سے بنی تصاویر ہیں ۔
جنید نواز کا تعلق سندھ کے ضلع میرپور خاص سے ہے اور انہوں نے پینٹنگ کی تعلیم کسی باقاعدہ ادارے سے نہیں بلکہ اپنے علاقے کے ہی مقامی اساتذہ سے حاصل کی ہے۔
جنید نے اس نمائش میں 'برننگ ڈیزائرز' کے نام سے اپنی دو تخلیقات پیش کی ہیں جن میں دیہی سندھ کی عورتوں کی انتظار کی کیفیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اپنے اس کام کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مغرب کے برعکس مشرق کی عورت اپنی خواہشات کا بے باک اظہار نہیں کرتی اورا نہوں نے اپنی پینٹنگ میں اسی کیفیت کو نمایاں کیا ہے۔
نمائش میں ایک نوجوان مجسمہ ساز سلیم رضا بھی شریک ہیں جن کا بنیادی تعلق کوئٹہ سے ہے تاہم وہ گزشتہ 10 برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔
لاہور کے 'نیشنل کالج آف آرٹس' کے گریجویٹ سلیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے 'ٹیراکوٹا' کی مدد سے اپنی سرزمین کے دکھ اور درد کو زبان دینے کی کوشش کی ہے۔
گیلری کی کیوریٹر اور نمائش کی منتطمہ حسنہ ناز نے 'وی او اے' کو بتایا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام سندھ کے فن کاروں کی یہ نمائندہ نمائش ہر تین برس بعد منعقد کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ نمائش میں مشہور فن کاروں اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ نئے اور ابھرتے ہوئے فن کاروں کا کام بھی رکھا گیا ہے جن کا انتخاب سینئر پینٹرزپر مشتمل ایک کمیٹی نے کیا ہے۔
اکتوبر کی 25 تاریخ تک جاری رہنے والی اس نمائش کا افتتاح اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو نے کیا۔