تین روزہ 'کراچی لٹریچر فیسٹول' اختتام پذیر

فیسٹول کے تیسرے روز ہونے والی ایک نشست کا منظر، درمیان میں بھارت سے آئے ہوئے تاریخ دان اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی موجود ہیں

پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے بھی اتوار کو 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کا اچانک دورہ کیا اور "پاک امریکہ تعلقات کتنے دیرپا ہوں گے؟" کے عنوان سے ہونے والی ایک نشست میں شرکت کی۔
کراچی میں تین روز سے جاری لٹریچر فیسٹول اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ اتوار کو فیسٹول کے آخری روز مختلف موضوعات پر 40 سے زائد نشستیں ہوئیں۔

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اور ناول نگار کاملہ شمسی 'لٹریچر فیسٹول' کی اختتامی تقریب کے کلیدی مقررین تھے جنہوں نے فیسٹول کےکامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دی۔

اس سے قبل ادبی میلے کے آخری روز ہونے والے اہم پروگراموں میں اردو کے معروف ناول نگار عبداللہ حسین، مزاح نگار عطاالحق قاسمی، بھارتی تجزیہ کار اشیس نندے، سندھی شاعر امداد حسینی اور دانشور امر جلیل، ناول نگار اور صحافی محمد حنیف، آسکر یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے اور معروف براڈ کاسٹر ضیا محی الدین کے ساتھ نشستیں شامل تھیں۔

پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے بھی اتوار کو 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کا اچانک دورہ کیا اور "پاک امریکہ تعلقات کتنے دیرپا ہوں گے؟" کے عنوان سے ہونے والی ایک نشست میں شرکت کی۔

نشست کے میزبان 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان ' کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین تھے۔

عشرت حسین کہ اس سوال پر کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکا کے اسٹریٹجک مفادات میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ امریکی سفیر نے واضح کیا کہ وہ موجودہ صورتحال کا موازنہ 1989ء میں افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نہیں کریں گے۔ ان کے بقول، "ہم 2014ء میں 1989ء کی غلطیاں نہیں دہرانا چاہتے"۔

رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے 1989ء کے واقعات سے بہت سبق سیکھے ہیں اور ان کا ملک مستقبل میں پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے۔

عشرت حسین کے اس سوال پر کہ امریکا امداد کے بجائے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت پر توجہ کیوں نہیں دے رہا، امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان 2050ء تک آبادی کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور اس حقیقت کے پیشِ نظر ان کا ملک یہاں معاشی استحکام اور سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا اس وقت پاکستان کے شعبہ توانائی پر کام کر رہا ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران تین آبی اور دو تھرمل پاور پلاٹنس کی امریکی معاونت سے تعمیر و مرمت کے ذریعے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوا ہے۔

اس سے قبل فیسٹیول کے تیسرے اور آخری دن کا آغاز 'بلوچ ادب اور قدرتی مناظر' کے عنوان کے تحت ہونے والے سیشن سے ہوا جس کے شرکا میں ایوب بلوچ، طارق لونی اور زبیدہ جلال شامل تھے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ادبی حوالے سے بلوچستان مالا مال ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو نظر انداز کیا جانا بڑی بھول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی تاریخ میں خانہ بدوشوں نے بلوچی ادب کو کہانی سنانے سمیت بہت سی روایات بخشیں۔

'تاریخ نویسی' کے عنوان سے ہونے والے مذاکرے میں شریک دانشوروں کا کہنا تھا کہ تاریخ لکھنے کی ذمہ داری پیشہ ور اور غیر جانبدار مورخوں کی ہے اور حکومتوں کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

مذاکرے میں شریک جامعہ ملیہ دہلی کے سابق وائس چانسلر اور تاریخ دان مشیر الحسن نے کہا کہ تاریخ کے دقیانوسی تصورات کو محدود کرنا چاہیے۔ پاکستانی تاریخ دان حمیدہ کھوڑو نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسٹ کتابیں لکھتے ہوئے اعتدال پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

ماہرِ تعلیم عصمت ریاض کا کہنا تھا کہ تاریخ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آدمی خود کو پہچان سکے۔مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے حاضرین کو بتایا کہ ان کی لکھی ہوئی بہت سی کتابوں پر کئی ملکی تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں پابندی عائد ہےلیکن ان پابندیوں کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے نوجوان ان کی کتابیں پڑھتے اور سراہتے ہیں۔

اتوار کو ہونے والی ایک اور اہم نشست 'ڈرامہ اور ٹی وی' کے عنوان سے منعقد ہوئی جس کے میزبان نوجوان ہدایت کار و اداکار سرمد کھوسٹ تھے جبکہ گفتگو میں ڈراما نویس حسینہ معین، اداکار، شاعرہ عطیہ داؤد، ،اور پروڈیوسر سیما طاہر خان اور سلطانہ صدیقی شامل تھیں۔

اپنی گفتگو میں حسینہ معین نے اچھا ڈرامہ لکھنے اور اس کے مناسب اور سبق آموز اختتام کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ڈراموں میں اچھے اختتام نہ ہونے کا الزام ہندوستانی یا ترکی ڈراموں کی مقبولیت کے سر ڈالنا دراصل اپنی کوتاہی کا اعتراف نہ کرنا ہے۔

حسینہ معین کا موقف تھا کہ کئی دہائیوں تک پڑوسی ملکوں پر راج کرنے اور مثالیں قائم کرنے کے بعد اب پاکستانی ڈراموں کا زوال شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں ڈراموں میں در آنے والے ان مختلف عناصر کی بھی نشان دہی کی جو ان کے بقول پاکستانی معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو متاثر کر رہے ہیں۔

سکرپٹ ایڈیٹراور مصنفہ عطیہ داؤد نے پاکستانی ڈرامے میں زنا جیسے حساس موضوعات کی توہین آمیز اور سطحی منظر کشی پر کڑی تنقید کی۔

'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے آخری روز 11 کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ ان کتابوں میں پیٹر پانکے کی کتاب 'سینٹس اینڈ سنگرز: صوفی میوزک ان دی انڈس ویلی'، منیزہ ہاشمی کی کتاب 'ہو ایم آئی'، صحافی بابر ایاز کی کتاب 'واٹس رانگ ود پاکستان' اور پروین شاکر کی شاعری کا انتخاب شامل تھیں۔

تین روزہ فیسٹول میں شرکت کے لیے 11 ممالک کے 30 سے زائد ادیب اور مصنف کراچی پہنچے تھے جب کہ اندرونِ ملک سے بھی ڈیڑھ سو سے زائد مصنفین اور شعرا اس ادبی میلے میں شریک ہوئے۔ لٹریچر فیسٹول کے دوران 28 کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔

منتظمین کے مطابق پانچویں 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے تین روز کے دوران لگ بھگ 70 ہزار افراد شریک ہوئے جس سے عوام و خواص میں اس نوعیت کی ادبی تقریبات کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔