کراچی: یہودیوں، پارسیوں کی متروک رہائش گاہ میوزیم میں تبدیل

Your browser doesn’t support HTML5

’ٹی ڈی ایف گھر‘ اسی نظریئے پر قائم کیا گیا ہے جس پر اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ امن‘ مساوات اور سب کو یکساں حقوق ۔یہ گھر آج بھی اسی مذہبی ہم آہنگی کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔

کراچی کے ایک قدیم علاقے ’جمشید کوارٹرز‘ میں ایک گھر ’ٹی ڈی ایف ہوم‘ ایسا بھی ہے جو 87 سال پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں پارسیوں، یہودیوں، عیسائیوں، مسلمانوں اور ہندو خاندانوں کی رہائش گاہ رہا ہے. فی الوقت یہ گھر ’دی داؤد فاؤنڈیشن‘ کی ملکیت ہے۔

اس مکان کی مالیت اس کی تاریخی حیثیت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے کروڑوں روپے بنتی ہے۔ مگر 'داؤد فاؤنڈیشن' نے اسے پبلک کے لیے عام کردیا ہے۔

فاؤنڈیشن کے جنرل منیجر سید فصیح الدین بیابانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی فاؤنڈشن کی بنیاد پاکستان سے محبت ہے اور اسی محبت کو زندہ رکھنے اور اسے مزید آگے بڑھانے کے لیے اس گھر کو عوام کے لیے کھول گیا ہے۔

کسی دور میں 'جمشید کوارٹرز' نہایت پوش علاقہ ہوا کرتا تھا اور شہر کے امیر ترین پارسی اور یہودی خاندان یہاں آباد تھے۔

اس مکان کی بنیاد 1920ء میں کراچی کے پہلے میئر جمشید جی نسروانجی نے رکھی تھی جو پارسی تھے۔

نئی نسل کو شہر کے ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اس قدیم مکان کی تزئین و آرائش اس طرح کی گئی ہے کہ اس کی اصل ہیئت تبدیل نہ ہو۔

عوام کی دلچسپی کی خاطر اس گھر کو ایک چھوٹے سے میوزیم کی شکل دی گئی ہے جبکہ گھر میں نادر اور قیمتی ساز و سامان نمائش کے لیے رکھا گیا ہے ۔

فصیح الدین کا کہنا ہے کہ یہ سامان پاکستان کے کونے کونے سے لاکر یہاں رکھا گیا ہے۔

سامان میں قدیم دور کے ٹیلی فون، ٹائپ رائٹر، ستر سال پرانا ریڈیو، خال خال کہیں نظر آنے والا گراموفون، اس کے ریکارڈز، پاکستانی سیاست دانوں کی پرانے وقتوں کی یادگار تصاویر، فرنیچر، برتن، کتابیں اور بجلی کے سامان سمیت ایسی درجنوں اشیا ہیں جو عام طور پر کہیں نظر نہیں آتیں۔

فصیح الدین کے بقول اس گھر کو پبلک پلیس بنانے کا مقصد نئی نسل کو پاکستان اور کراچی کی کھوئی ہوئی ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔

یہاں آنے والوں کے لیے ایک کیفے کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے جبکہ شہر کی تاریخ کو جاننے کے لیے وہ کتابیں بھی رکھی گئی ہیں جو نادر ہونے کے سبب بہت ہی کم لوگوں کو دستیاب ہوتی ہیں۔

چونکہ اس پورے علاقے میں اس وقت کے امیر ترین ہندو، مسلم ،پارسی اور یہودی رہا کرتے تھے، لہذا اس مکان کے بارے میں یہی امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ مختلف ادوار میں یہودی، عیسائی اور ہندوؤں کے زیر استعمال رہا ہوگا۔

اسے 'دی داؤد فاؤنڈیشن' کی مناسبت سے ’ٹی ڈی ایف گھر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ فاؤنڈیشن کی سربراہ سبرینہ دائود کا کہنا ہے ’ٹی ڈی ایف گھر‘ اسی نظریے پر قائم کیا گیا ہے جس پر اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی، یعنی امن، مساوات اور سب کے لیے یکساں حقوق۔

انہوں نے وی او اے سے گفتگو میں بتایا کہ "اس گھر کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں جو اپنی ثقافت دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے اور تعلیم، تاریخ، سائنس، آرٹ، اور ثقافتی ورثے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔"

ان کے بقول ’’کراچی کی ثقافت کا یہ مظہر اس سے قبل عوام کی نظروں سے اوجھل تھا اور اسے ایک پبلک اسپیس میں بدلتا دیکھنا یقینا میرے لیے قابلِ فخر ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں آرٹ اور ثقافتی ورثے کی منتقلی کا باعث بنے گا۔‘‘

’ٹی ڈی ایف گھر' کی خاصیت اس کا ’لیونگ روم میوزیم‘ ہے جسے 1930ء میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا سے سجایا گیا ہے۔

گھر کے درمیان میں ’صحن کیفے‘ بنایا گیا ہے جو کراچی میں مشہور ’ایرانی کیفے کلچر‘ کی یاد دلاتا ہے جہاں لوگ پرانی ایرانی کرسیوں پر بیٹھ کر چائے اور بن کا مزہ لیتے تھے۔

مکان کی کئی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی چھت سے مزار قائدکا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

مکان میں تین نمائشی ہال اور ایک ٹریننگ روم بھی ہے جنھیں ٹریننگ، ورکشاپس، سیمینارز اور دیگر تربیتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔