کراچی میں نئے سال کے آغاز پر ہی سنیما سے جڑی ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے ۔۔۔اور وہ یہ کہ رواں ماہ ہی شہر میں ’کراچی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ‘ ہونے جا رہا ہے جو 29 مارچ سے شروع ہو کر یکم اپریل تک جاری رہے گا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے فیسٹیول میں دنیا کی بڑی بڑی فلم انڈسٹریز سے وابستہ بین الاقوامی شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ فیسٹیول کا اہتمام ’کراچی فلم سوسائٹی ‘کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی روح رواں پی ٹی وی کی سابق ڈائریکٹر اور ہم ٹی وی کی موجودہ صدر سلطانہ صدیقی ہیں جبکہ اپنے شعبے کی مستند و معروف کئی اہم شخصیات کی بھی معاونت انہیں حاصل ہے۔
ان میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین ، پاکستان کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ ، سی ای او آکسفورڈ یونیورسٹی پریس و سابق سینیٹر امینہ سید،اپنے وقت کے جانے مانے مصنف ، پروڈیوسر اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات جاوید جبار ،آسکر ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر پروڈیوسر شرمین عبید چنائے و دیگر شامل ہیں ۔
سوسائٹی کے چیف پیٹرن گورنر سندھ محمد زبیر ہیں اور دیگر سرپرستوں میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب شامل ہیں۔ حکومت سندھ کے شعبہ ثقافت کا تعاون بھی اسے حاصل رہےگا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں جاوید جبار نے کہا ’کراچی کی سرزمین میں جانے ایسی کیا بات ہے کہ ’فنون لطیفہ ‘کا پودا جب بھی یہاں لگا ہے خوب پنپا اور پھلا پھولا ہے ۔‘
جاوید جبار کا کہنا تھا ’شاعری، نثری ادب، خطاطی اورفلم ۔۔ ہر شعبے کے لئے کراچی کی مٹی بہت زرخیز رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری نے دوسرا جنم بھی کراچی کی زرخیز مٹی میں لیا ہے۔ شہر میں فلم بینوں کی تعداد شروع سے بہت زیادہ رہی ہے ۔‘
’میرا حوالہ بھی کراچی ہے اور خود میں بھی فلموں سے دیوانگی کی حد تک شوق رکھتا ہوں ۔ برسوں پہلے کا واقعہ ہے جب شہر میں ’لارنس آف عربیہ‘ جیسی شہرہ آفاق فلم ریلیز ہوئی تو میں اور انور مقصود بھی فلم دیکھنے پہنچ گئے ۔ ‘
’کچھ نو عمری کا دور تھا، کچھ لاعلمی۔۔ سنیماہال پہنچ کر معلوم ہوا کہ فلم 70 ایم ایم کے پردے پر دکھائے جانے کے سبب اس کا ٹکٹ دو روپے مہنگا ہے۔ دو روپے اس دور میں بہت تھے۔ فلم دیکھے بغیر گھر واپس آنا گوارا نا ہوا تو دیوانگی کا اندازہ لگایئے کہ ایک بھکاری کے پاس پہنچ گئے اور اسے ساری روداد سناکر دو روپے ادھار مانگے ۔‘
’ اسے ہم پر ترس آ گیا۔ لہذا فوراً قرض دینے پر رضامند ہو گیا۔ اگلے دن جا کر ہم نے یہ قرض اتارا۔ سو فلموں سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔‘
جاوید جبار کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم ٹی وی کی صدر سلطانہ صدیقی کا کہنا تھا ’کراچی والوں کو اور خود مجھے بھی فلموں سے لگاؤ رہا ہے ۔ شروع سے تخلیقی رجحان رکھتی ہوں۔ اسی لئے اب کراچی فلم سوسائٹی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے تحت ’پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ فیسٹیول کی میزبانی کراچی کرے گا جبکہ فیسٹیول میں ابھی تک دنیا کے 43 ممالک کی 1200 فلمیں سلیکشن کے لئے موصول ہوچکی ہیں ۔ ‘‘
ایک سوال کےجواب میں سلطانہ صدیقی نے کہا ’ فلموں کے نام کی حتمی فہرست 31 جنوری کے بعد سامنے لائی جائے گی۔ ابھی اس پر کام جاری ہے۔ ‘‘
جاوید جبار کا کہنا تھا ’ فلمیں عام آدمی کی سب سے سستی اور بہترین تفریح ہے۔ لہذا ہماری کوشش ہے کہ شہر کے چھ اضلاع میں فلموں کی نمائش ممکن ہو پائے ۔ ایک عام آدمی ہزار آٹھ سو روپے کا ٹکٹ لے کر شہر کے جدید ترین سنیماہالز تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہ پہلا فیسٹیول ہو گا جس کا ناصرف ٹکٹ بہت مناسب قیمتوں پر دستیاب ہو گا بلکہ اس شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رہنے والا ہر عام آدمی اس فیسٹیول میں شرکت کر سکے گا۔ فلم میں کم، درمیانے اور دو گھنٹے کے دوارنئے سمیت مختلف موضوعات کی مختلف کیٹیگریز کی فلمیں رکھی گئی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس فیسٹیول میں شریک ہوسکیں۔ ‘‘
پاکستان کے لئے دو مرتبہ آسکر ایوارڈز لانے والی ہر دل عزیز ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے نے دوران گفتگو فیسٹیول کو نہایت پر تپاک انداز میں سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ناصرف پاکستان کا سافٹ امیج ساری دنیا میں جائے گا بلکہ ملکی فلم انڈسٹری کو بھی پوری طرح آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔
اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لئے میں نے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کیا۔ ایک بار ماسکو گیا تو وہاں ہوٹل کے بیرے کو صبح ہی صبح بھارتی فلم کے ایک گانے کو گنگناتے ہوئے پایا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور بلاخر پوچھ ہی لیا کہ وہ تو روسی ہے پھر انڈین گانے ۔۔اس پر اس نے جواب دیا کہ روس میں بھارتی فلمیں اور گانے انتہائی ذوق و شوق سے سنے اور گنگنائے جاتے ہیں۔ وہاں کے تمام فنکاروں کو پورا ملک جانتا ، پہچانتا ہے۔‘
اسی طرح ایک بار نائجیریا میں ایک صاحب کو بھارتی گانے گاتے دیکھا تو دریافت کرنے پر ان کا بھی کم و بیش وہی جواب تھا جو ماسکو کے بیرے نے دیا تھا۔ کئی اور ممالک میں بھی میں نے یہی دیکھا کہ لوگ بھارتی فلموں اور گانوں کو دیوانہ وار پسند کرتے ہیں۔ اسی وقت میں نے سوچ لیا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو بھی اس مقام تک لانے کے لئے جو کچھ بن پڑے گا کروں گا لہذا کراچی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے لئے کچھ کرنے کی پیشکش ہوئی تو مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ ویسے بھی میں اسی وقت آگے بڑھتا ہوں جب یہ ٹھان لوں کہ میں اس شعبے میں کام کر سکتا ہوں اور واقعی مجھے اس میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ‘