دوستو! پچھلی دو قسطوں میں، اپنے حج کا سفر بیان کر رہا تھا۔ اور، ذکر تھا مدینہ شریف میں قیام کا، کہ درمیان میں چھٹیوں کے باعث، آپ سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ اب کوشش کرتا ہوں کہ سلسلہ وہیں سے شروع ہو جہاں سے منقطع ہوا تھا۔
مدینے کی مقدس فضاؤں میں جو چار روز گزرے تھے وہ روح کو پاکیزہ اور وہاں کی خوشبوؤں سے معطّر کرنے کا سبب بنے اور یہ روضہٴ رسولِ مبارک پر حاضری اور وہاں پر دعاؤں کا اثر ہی تھا کہ ہم جیسے گناہگار، خطاکار اور سیاہکار کے لئے بھی اس رحمان و رحیم نے حج کو بے انتہا آسان کردیا اور واقعی، اللہ کریم نے اتنی آسانیاں پیدا کردیں کہ عرفات کی سخت ترین گرمی میں ایک ٹھنڈےکیمپ کے اندر گاؤ تکیے پر ٹیک لگائے، پنجاب سے آئے میرے ایک نوجوان ساتھی کے منہ سے یہ الفاظ بے ساختہ امڈ پڑے۔ کہ ’خالد صاب، اے تے پتہ ای نئی لگیا۔ واقعی ساڈا حج ہوگیا اے کہ کی ہویا اے‘۔
ہمارا حج کیمپ،منیٰ میں بالکل جمرات کے سامنے تھا، جہاں شیطان کو کنکریاں مارنے کےلئے علامتی ستون بنے ہوئے ہیں۔ یعنی پندرہ منٹ میں آپ پیدل وہاں پہنچ جائیں۔ کیمپ بہت آرامدہ اور ساتھی سب بہت مددگار، سلجھے ہوئے تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ڈاکٹر صاحبان بھی ان میں شامل تھے اور جب میری اور مونا کی طبیعت ذرا خراب ہوئی، تو ہر قسم کا علاج اور تیمارداری میسر تھی۔ طرح طرح کے کھانے، وافر مقدار میں تھے اور سب سے بڑا جو خطرہ تھا، باتھ روم کا کہ کیسے ہوں گے اور لمبی قطاریں ہوں گی وہ مسئلہ بھی زیادہ پیش نہیں آیا۔
منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ کا سفر، ٹرین میں کرایا گیا، جو ہمارے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی،کیونکہ ہمارے منتطمین نے اسے خفیہ رکھاتھا۔ دراصل، یہ ٹرین بالکل نئی اور پہلی مرتبہ چلائی گئی تھی اس لئے، شاید انہیں یقین نہیں تھا کہ مل سکے گی کہ نہیں۔ لیکن، اللہ مہربان تھا۔ اس لئے، سب سے مشکل مرحلہ سب سے آسان ہوگیا اور اس پر سفر کے لئے ہم سب کو ہاتھ پر باندھنے کے لئے خصوصی بینڈ دئے گئے تھے۔ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گیا۔ عرفات میں بھی ایک بڑے خیمے میں انتظام کیا گیا تھا، تاکہ باہر دھوپ سے بچے رہیں۔ اور مزدلفہ میں جہاں لوگ رات پتھروں پر گزارتے ہیں کچھ بلاک مخصوص کر کے وہاں قالین بچھائے گئے تھے، جن پر حاجیوں نے کمبل اور بستر بچھا لئے اور اطمینان سے نوافل اور عبادتیں کیں۔ اس تمام سفر میں ہمارے منتظم، پلے کارڈ اٹھائے ہمارے آگے آگے تھے، تاکہ کوئی بھٹک نہ جائے۔ شیطان کو کنکریاں مارنے اور عمرہ کی ادایئگی کا مرحلہ بھی سب کی سہولت کے مطابق،گروپوں کی صورت میں کرایا گیا۔ سب ارکان بخوبی ادا کرنے کے بعد، جب حج کا عظیم فریضہ ادا ہوگیا تو ہمیں چار دن مکہّ کے ایک انتہائی خوبصورت ہوٹل میں ٹہرایا گیا، جو ٹاور بلڈنگ کے اندر حرم سے ملحق تھا۔ اسکی ایک لابی کے اندر نماز کا انتظام تھا، جس میں سامنے خانہٴکعبہ نظر آتا تھا۔ یہ چار دن کا اضافی قیام، ہمارے ایجنٹ جناب اعجاز جنجوعہ کی تجویز پر ہوا۔ ہم تو فوراً واپس آنا چاہتے تھے، مگر انہوں نے کہا کہ نہیں آپ ضرور قیام کریں بہت مزا آئیگا اور آپ سکوں سے عبادت کریں گے اور مجھے بعد میں دعائیں دیں گے اور واقعی بہت لطف آیا اور ان کے لئے اب تک دعائیں جاری ہیں۔
ایک دن اسکے سفید آرامدہ بستر پر لیٹے، میں سوچتا رہا کہ اللہ نے ہر کام کا ایک وقت اور حساب رکھا ہوتا ہے۔ ہم بے صبرے انسان خوامخواہ، پریشان ہو کر جی ہلکان کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات لالچ ہمیں نقصان پہنچاتی ہے۔ جو کام ہم اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں وہ بہت سہل اور وقت پر ہو جاتا ہے اور جو اپنی ناقص عقل سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی خراب ہو جاتا ہے۔ اپنے کئے پر، کیسی کیسی مشکلیں پیش آئیں۔ لیکن، اس مولا نے ہماری بیوقوفیاں سمجھ کر انہیں آسان کر دیا۔
کہاں کہاں نہ میرے پاؤں ڈگمگائے مگر
تیرا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
خاص طور پر حج سے ایک رات پہلے کا واقعہ بار بار یاد آتا ہے، جب یہ مکمل یقیں ہو چلا تھا کہ اب ہم حج پر نہیں جا سکیں گے۔
آپ کو ضرور سناؤں گا۔ ابھی تو بہت دلچسپ لگے گا۔ لیکن، کیا گزری ہم پر آپ بھی سنئے۔
مدینے سے واپسی پر ہمارا قیام عزیزیہ میں تھا۔ یہ مکہّ اور منیٰ کے درمیان ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ہرحج گروپ کیلئے عمارتیں وقف ہیں۔ عازمین منیٰ روانگی سے قبل یہاں قیام کرتے ہیں۔ یہاں پہنچتے ہی عمرے کا فریضہ ادا کیا اور واپس اپنی قیام گاہ آگئے۔ چونکہ، تھکے ہوئے بہت تھے اس لئے خوب آرام کیا، اور رات کو بہت عمدہ کھانا کھا کر پھر سو گئے۔
دوسرے دن، سب لوگ مختلف گروپوں میں پھر مسجدِ حرام کی طرف روانہ ہوئے کہ مزید عبادتیں اور نمازیں ادا کی جائیں کہ اس بابرکت جگہ پر ہر ہر لمحہ کئی گنا بڑھ کر ثواب کا حامل ہے اور ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔سبحان اللہ۔ بس اس مالک کے دینے کے طریقے ہیں کوئی مانگنے والا تو ہو۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ،کوئی سائل ہی نہیں
باوجود اس تمام تر لالچ کے، ہم نے اپنے آپ کو تھام رکھا تھا کہ آج آرام کرنا ہےاور توانائی کو قائم رکھنا ہے،تاکہ اس بڑے مشن کے لئے پوری طرح تیار رہیں جس پر صبح ہی روانہ ہوناتھا۔ شام تک لوگ جاتے رہے اور ہر ایک دعوت دیتا کہ چلیں گے اور میں پوری استقامت سے جواب دیتا رہا کہ نہیں شکریہ۔ حج کے بعد انشااللہ جائیں گے۔
لیکن۔ جناب کہاں۔ یہ صبر آخر کو ٹوٹنا ہی تھا اور ہمارا امتحان شروع ہونا تھا۔
شامتِ اعمال۔ میں شام کے وقت ٹہلتا ہوا کمرے سے باہر آیا تو دیکھا کہ عمارت کے باہر دروازے پر بیگم صاحبہ ایک خاتون سے بڑے اشتیاق اور دلچسپی سے، باتیں کر رہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں کہ دیکھیں سب لوگ نمازوں کے لئے حرم شریف جا رہے ہیں۔ ہم کیوں یہاں بیٹھے ہیں۔ ابھی یہ لوگ بھی واپس آئے ہیں ٹیکسی میں گئے اور ایک گھنٹے میں نماز پڑھ کر آ بھی گئے۔
خاتون اور انکے شوہر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر مجھے سب تفصیل بتائی۔ ساتھ ہی، انہوں نے ایک کارڈ بھی دیا جس پر ہماری عزیزیہ کی قیام گاہ کا پتہ درج تھا۔ کہنے لگے، بس آپ یہ ٹیکسی والے کو دے دیں وہ آپ کو واپس یہاں پہنچا دے گا۔
یہ سب کچھ بہت آسان نظر آیا اور سوچا کہ واقعی ہم یہاں بیٹھے ہیں اور جنت اتنے قریب ہے،خوامخواہ کی محرومی کیوں۔
پھر بیوی کی شدید خواہش کے آگے سرِِِ تسلیم خم کرنا تھا کہ ہم بابا آدم کی اولاد ہیں جو اماں حوّا کے کہنے پے جنت سے نکالے گئے تھے۔
اچانک ایک ٹیکسی بھی سامنے آکر رک گئی اور دو بزرگ حضرات جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ انہوں نے جب ہمیں بھی مائل دیکھا تو آواز لگائی، آنا ہے تو اسی ٹیکسی میں آجائیں،Share کر لیں گے۔ یہ ایک اور لالچ تھی،جس سے ہم مزید پھسل گئے۔
فوراًٍ اپنے کمرے میں ضروری دستی سامان اور خاص طور پر اپنا حج کارڈ اور والٹ اٹھانے بھاگے، مونا پہلے ہی تیار کھڑی تھیں۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔ جلدی سے ٹیکسی میں بیٹھے۔ ڈرائیور بنگالی تھا۔ اس نےیہ جان کر کہ ہم پاکستانی ہیں ٹوٹی پوٹی اردو میں بات چیت شروع کی۔ اور پھر ہمارے کہنے پر ٹیکسی دوڑا دی۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی حرم سےاذان کی آواز گونجنے لگی، اور ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے سڑک پر ہی صفیں بنانا شروع کردیں۔ اور حرم کے قریب پہنچتے ہی ٹیکسی والے کے لئے چلنا مشکل ہوگیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ وہیں اتر جائیں اور فٹ پاتھ پر نماز ادا کریں۔ خیر، شکر خدا کا کہ نماز تو وقت پر ادا ہوگئی، لیکن بعد کا مرحلہ بہت سخت تھا۔
ابھی ہم نفل ادا کرہی رہے تھے کہ لوگوں نے تیزی سے حرم کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ ہم بمشکل کھڑے ہوئے اور ہجوم میں شامل ہوگئے۔ اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ جس طرف لوگوں کا بہاؤ تھا اسی طرف چلتے رہیں۔ بلکہ، یہ چلنا نہیں لوگوں کے اس سمندر میں بہہ جانا تھا جو ایک چیونٹی کی رفتار سے کھسک رہا تھا۔ حالانکہ، مسجد بالکل سامنے تھی مگر لاکھوں افراد چاروں طرف سے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ہم گھسٹتے ہوئے ایک دروازے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اندر سے ان لوگوں کا ایک ریلا باہر نکل آیا، جو نماز ادا کر چکے تھے۔اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے اندر جانے والوں کو روک دیا۔ اب مشکل یہ تھی کہ ہم پولیس کی اُس رکاوٹ کے ساتھ ہی کھڑے تھے اور دونوں جانب کا دباؤ ہمارے اوپر تھا۔ اندر جانے والے ایک طرف سے دھکا دے رہے تھے اور باہر آنے والے دوسری طرف سے۔ مجھ پر بیوی کو سنبھالنے کی بھی ذمہ داری تھی۔ سانس بھی لینا دشوار ہو رہا تھا۔ دم گھُٹ رہا تھا اور لگتا تھا اب کسی وقت سانس رک جائے گی اور ہم یہیں ڈھیر ہو جائیں گے۔ کاش ایسا ہوجاتا اور ہم وہیں رخصت ہو جاتے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ مجھے وہ تمام خبریں اور واقعات یاد آنے لگے جن میں ایسے ہی بڑے ہجوم میں بھگدڑ مچ جانے سے لوگ کچلے جاتے ہیں اور ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ احساس ہو رہا تھا کہ ہم نے بہت غلط وقت کا انتخاب کیا۔ لیکن، اب کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
مسئلہ یہ تھا کہ واپس بھی نہیں جا سکتے تھے۔ اور نہ ہی غصہ کر سکتے تھے کہ اتنی مقدس جگہ پر کھڑے تھےاور حج پر روانگی سے پہلے امام صاحب نے سب سے پہلا درس یہی دیا تھا کہ حج کو قائم رکھنا ہے تو غصے اور جذبات پر قابو رکھنا ہے۔ صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔ پھر یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلّی دی کہ اللہ تک پہنچنے کے لئے اتنی مشکل تو برداشت کرنی ہی ہوتی ہے، اتنا آسان نہیں اُس کا پانا۔
بہر کیف۔ کچھ دیر بعد، حالات بہتر ہوئے اور جونہی پولیس نے رکاوٹیں ہٹائیں ایک بڑے دھکّے کے ساتھ سب اندر داخل ہوگئے۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ سکون کا سانس لیا اور حرم کی اوپر کی منزل کی جانب رخ کیا تاکہ سکون سے نوافل ادا کرسکیں۔ راستے میں خوب آب زم زم پیا، تاکہ حواس بحال ہوں۔ پھر اوپر کی منزل پر پہنچے۔ سامنے خانہٴکعبہ کا خوبصورت اور تقدس آمیز منظر تھا اور بھینی بھینی خوشبودار اور دلآویز ہوا تھی۔ شاید جنت کی ہوائیں بھی ایسی ہی دلفریب ہونگی۔ اور کون خوش نصیب ہونگے جو اس کا مزہ لیں گے۔ اللہ سب کو نصیب کرے۔ ہم اس منظر میں کھو گئے کہ اچانک اذان کی پُراثر آواز گونجی،اور کچھ دیر بعد باجماعت نماز ادا ہوئی۔
نماز کی ادائیگی کہ بعد بہت اطمینان سے اُس جانب آئے جہاں ٹیکسیاں اور بسیں کھڑی ہوتی ہیں۔ ہمارے لئے ایک اور آزمائش شروع ہونے والی تھی۔ پہلے تو کوئی ٹیکسی رکنے پر تیار نہیں تھی ایک آدھ جو آہستہ ہوئی اور ہم نے عزیزیہ کا نام لیا تو مزاقاً اس نے اتنے دام بتائے کہ ہم حواس باختہ ہوگئے۔ یہ تماشہ جاری تھا کہ ایک پاکستانی ٹیکسی والا نظر آیا تو ذرا جان میں جان آئی۔ وہ ہمیں کافی دیر سے دیکھ رہا تھا۔ جب اس سے مّدعا بیان کیا تو کہنے لگا بھائی آپ غلط جگہ کھڑے ہیں،حرم کے بالکل دوسری جانب جائیں، وہاں آپکو شاید کوئی ٹیکسی مل جائے۔ اب جناب ہم پھر ایک مرتبہ حرم میں داخل ہوئے اور اندازاً اس جانب جانا شروع کیا جہاں اس نے بتایا تھا۔ لیکن، وہاں پہنچ کر بھی مایوسی ہوئی اور شاید رات زیادہ ہوگئی تھی اس لئے کوئی ٹیکسی مل نہیں رہی تھی اور جو ملتی وہ انکار کر دیتا تھا۔ اسی کشمکش میں کافی وقت گزر گیا اور پریشانی کا ایک بار پھر آغاز ہو گیا کہ اچانک ایک بس سے آواز آئی، ’عزیزیہ،عزیزیہ‘۔ کنڈکٹر بس سے آدھا باہر نکلا آوازیں لگا رہا تھا۔ ہمیں اپنا کراچی یاد آگیا: ’ڈبل اے ڈبل اے۔ چورنگی، چورنگی‘۔
رات بہت بیت چکی تھی۔ ٹیکسی مل نہیں رہی تھی۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور بھاگتے ہوئے سوار ہوگئے۔ کنڈکٹر نے پوچھا کہاں جانا ہے؟وہ عربی میں سوال کر رہا تھا۔ ہماری زبان اس کے پلّے نہیں پڑ رہی تھی۔ اچانک خیال آیا کہ اسے وہ کارڈ دیں جس پر ایڈریس تھا اور جو ہمیں عزیزیہ میں ہمارے ایک ہمسفر نے چلتے وقت دیا تھا۔ جیب میں ہاتھ مارا، والٹ میں تلاش کیا، بیگ میں دیکھا۔ لیکن، وہ ندارد۔ اب تو ہوش گم ہوگئے۔ ایک ہی نشانی تھی وہ بھی گئی اب گھر کیسے پہنچیں گے۔ اور اوپر سے مسئلہ یہ تھا زبان کا۔ بس میں ایک ذرا معزّز قسم کے صاحب اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے، ٹوٹی پوٹھی انگریزی جانتے تھے، ہماری حالت کو بھانپ گئے اور پوچھنے کی کوشش کی ہم سے جیسے کیسے ہوا بتا دیا۔انہوں نے ڈرائیور سے عربی میں کچھ کہا اور بس چل پڑی۔ اب راستے بھر دعائیں کرتے رہے کہ خدا خیر سے صحیح جگہ پہنچا دے۔ اب بیگم صاحب کی باتیں الگ سننی پڑیں کہ آپ کمال کرتے ہیں پتہ ہی گھر بھول آئے۔ اب کون ان نیک بخت سے کہے کہ ہم تو آرام سے بیٹھے تھے آپ ہی نے ہلچل مچائی اور اس بھگدڑ میں وہ کارڈ وہیں کہیں رہ گیا۔ خیر تسلّی تھی کہ جب اس سڑک پر پہنچیں گے تو اندازہ ہو جائے گا۔ اتنی دیر میں ایک اور صاحب سوار ہوئے جو اردو جانتے تھے تھوڑی بہت۔ یہ معلوم نہیں کہاں سے تھے شاید بھارت کے تھے۔ ہمارے بس کے ساتھی نے ان سے عربی میں ہماری مدد کرنے کو کہا۔وہ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ ہم نے جو جو اندازے بتائے، انہوں نے کہا، جہاں میں اتروں گا اس سے اگلے سٹاپ پر آپ اتر جائیں۔ یہی ہوا۔ ہم اتر گئے اور ادھر ادھر دیکھا۔ ایک مسجد نظر آئی۔خیال ہوا کہ یہ وہی ہے جس میں ہم نے ظہر کی نماز پڑھی تھی۔ تیزی سے اسکی طرف گئے لیکن وہ کوئی اور تھی۔ اب وہاں جتنی مسجدیں نظر آئیں بھاگ بھاگ کر دیکھیں۔ لیکن، قریب سے سب مختلف دکھائی دیں۔ مجبوراً ایک قریبی ریستوران گئے اس نے کسی اور طرف بھیج دیا۔ وہاں ایک دکان والے نے کہیں اور کا پتہ بتایا۔ رات کا ایک بج رہا تھا اور کوئی سِرا نہیں مل رہا تھا کہ کہاں جائیں۔ ہمارے پاس واحد ایک سہارا، ایجنٹ کی طرف سے دیا ہوا وہ کارڈ تھا جن پر ان کی ایجنسی کا نام اور کچھ ٹیلیفون نمبر تھے۔ ہم نے کوشش کی اس فون پر بات کرنے کی۔ لیکن مسئلہ وہی عربی زبان کا تھا۔ اس دوران ایک گلی میں پہنچ گئے جہاں مختلف عمارتیں تھیں جن میں حج گروپ ٹہرے ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ باہر ہی ٹہل رہے تھے۔کچھ سے پوچھنے کی کوشش کی، لیکن انہیں سمجھ نہیں آیا۔پھر ایک دو اچھے عربی لوگ مل گئے انہوں نے بات سمجھنے کی کوشش کی۔ ہمارا ٹیلیفون کارڈ ہاتھ میں لیا اور اپنے سیل فون سے اس پر کال کی۔ رات دیر گئے کا وقت تھا اس لئے ذرا مشکل سے جواب آیا۔ لیکن، اس نے ایڈریس معلوم کرلیا۔ فون بند کرکے اس نے کہا بھائی آپ بالکل دوسرے علاقے میں ہیں۔ یہ شمالی عزیزیہ ہے اور آپکو جنوب میں جانا ہے۔جو یہاں سے خاصا دور ہے آپ ٹیکسی کرلیں۔ اب یہ ایک نیا مسئلہ تھا۔ل یکن وہ صاحب اتنے اچھے تھے کہ مشکل بھانپ گئے اور کہا ادھر ہی ٹہریں۔ اچانک ایک ٹیکسی وہیں آکر رکی۔ انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ اس جگہ جانا ہے۔ ایڈریس دیکھ کر اس نے منع کر دیا کہ میں وہیں سے آیا ہوں رش بہت ہے دوبارہ نہیں جاؤں گا۔ ان لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ میاں بیوی اجنبی ہیں بھٹک گئے ہیں ان کی مدد کرو۔ پاکستان سے آئے ہیں۔ پاکستان کا سن کر اس نے ہماری شکل دیکھی اور فوراً راضی ہوگیا۔ ہمارے محسنوں نے اس سے ریٹ بھی طے کر لیا اور کہا اتنے ریال اس کو دینے ہیں۔ ہم نے ان فرشتہ صفت انسانوں کا شکریہ ادا کیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک ٹھنڈی سانس لی۔
ٹوٹی پھوٹی عربی میں ڈرائیور سے بات شروع کی۔ اچانک اس نے اردو میں جواب دیا تو بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک عربی ہماری زبان اتنی اچھی طرح کیسے بول رہا ہے۔ ہماری حیرانی کو اس نے فوراً حل کردیا اور کہا میں بھی پاکستانی ہوں۔ہم نے کہا کس علاقے سے تو پتہ لگا سندھ سے۔ دبلا پتلا یہ شخص، جو شکل سے بدّو نظر آتا تھا، محمد خلیل تھا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اللہ نے ایک اور فرشتہ مدد کے لئے بھیج دیا۔ ہم نے اپنی سیٹ کو پیچھے کیا اور بہت اطمینان سے بیٹھ گئے۔ تمام ٹینشن یک دم ختم ہو گئی۔ اور پھر اس سے باتیں شروع ہوگئیں۔خلیل نے پاکستان سے سعودی عرب آنے، وہاں کی تکالیف اور مشکلات کا ذکر کیا اور پھر یہ دکھ بھری خبر سنائی کی کہ دو روز پہلے ہی اسکی انتہائی شفیق اور ٕمحبت کرنے والی والدہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور مجبوری یہ تھی کہ وہ جا بھی نہیں سکتا تھا۔
باتیں جاری تھیں کہ اس نے اچانک پوچھا کہ آپ کدھر سے آئے ہو۔ جب میں نے کہا امریکہ سے تو اس نے کہا وہاں پر کس جگہ کام کرتے ہو۔ تو میں نےیہ سوچتے ہوئے کہ اسے کیا سمجھ آئیگی۔ہچکچاہٹ سے بتایا ’وائس آف امریکہ‘۔ وہ کہنے لگا، ریڈیو امریکہ۔ میں نے جب کہاں ہاں تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔کہنے لگا سر، میں بڑی دیر سے آپکی آواز پر غور کر رہا ہوں کہ کہاں سنی ہے اسلئے ٕمیں زیادہ باتیں کر رہا تھا کہ پہچان ہوجائے۔لیکن، میں ابھی آپ کا نام بھول رہا ہوں۔ مونا نے اس کی یہ مشکل آسان کر دی تو لگتا تھا کہ وہ کہیں گاڑی سے باہر چھلانگ نہ لگا دے خوشی میں۔ کہنے لگا، اللہ نے کتنی مہربانی کی مجھے آپ سے ملوانا تھا کہ میں اس طرف آگیا۔ میرا بالکل ادھر جانے کا موڈ نہیں تھا،کیونکہ ابھی میں ادھر ہی سے آیا ہوں اور اسی لئے منع بھی کر رہا تھا کہ اب آپ دیکھیں کہ کتنا رش ہے اور چونکہ صبح سے حج کی ٹریفک شروع ہو رہی ہے، اس لئے پولیس نے راستے بند کر دئے ہیں اور اب آپ کا یہ حاجی کیمپ پانچ منٹ کے راستے پر ہے۔ لیکن، مجھے لمبے راستے سے جانا پڑے گا اور آدھ گھنٹے سے زیادہ لگے گا۔لیکن اب میری ساری تھکن دور ہوگئی۔خدا کا شکر کہ مجھے اس نے اس شخص سے ملا دیا جسے میں روز اپنی گاڑی میں سنتا ہوں اور بہت عرصے سے سن رہا ہوں۔ وہ باتیں کر رہا تھا اور میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس نے ایسے عمدہ شعبے سے وابستہ کر دیا جہاں لاکھوں لوگوں سے روزانہ رابطہ ہوجاتا ہے۔اتنی محبتیں اور دعائیں ملتی ہیں۔ یہ اسی کی مہربانی ہے کی اس نے مجھے لوگوں کی نظر میں قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ اور آج اس مشکل گھڑی میں کیسےکیسے نیک لوگوں کو ہماری مدد کے لئے بھیج دیا۔ اور یہ بھی حیرانی تھی کہ عموماً لوگ پی ٹی وی کے حوالے سے شکل دیکھ کر پہچانتے ہیں، آواز سے کسی نے پہلی مرتبہ جانا ہے۔ کیا شان اللہ کی۔
کچھ دیر ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد،خلیل نے ہمیں ہماری منزل پر پہنچا ہی دیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ کرایہ لینے پر کسی طرح راضی نہیں تھا بہت منت سماجت کی اور اسے کہا کہ بھائی یہ کرایہ نہیں محض انعام تمہاری اس خدمت کا کہ تم نے ہمارا حج بچا لیا۔ ورنہ پوری رات ہم بھٹکتے رہتے اور قافلے ہمارے بغیر ہی روانہ ہو جاتے۔ اس نے کہا کہ میرا انعام بس ایک ہے کہ آپ میری مرحوم ماں کے لئے دعا کردیں،کیونکہ میں تو ایک سال تک جا نہیں سکتا۔ یہ سن کر ہماری آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ پردیس میں نوجوانوں کو کیسے کیسے کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے اور پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں کہ باہر والے عیش کر رہے ہیں۔
اس کا شکریہ ادا کرکے ہم اندر کمرے میں آئے اور بستر پر لیٹ کر سوچتے رہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیا اور کس نیکی نے ہمیں بچا لیا، کروٹ لیکر دیکھا تو وہ کارڈ سامنے میز پر پڑا ہمارا منہ چِڑا رہا تھا، جس پر اس حج کیمپ کا پتہ درج تھا۔
زیادہ وقت نہیں تھا۔ اور موقع غنیمت جان کر کہ باتھ روم ابھی خالی تھے، جلدی سے جاکر حج مبارک کی نیت سے، غسل کیا۔ شکرانے کے نوافل ادا کئے، دعائیں کیں۔ ناشتہ کیا اور قافلہٴحج میں شریک ہوگئے، جو ٕمنٰی روانگی کے لئے تیار تھا۔
لبیک اللھم لبیک۔