اُس زمانے میں ٹی وی پربڑے بڑےقدِّآدم ویڈیو ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے،جن پر موٹی ٕموٹی spool tapes چڑھی ہوتی تھیں۔پچاس منٹ کی ایک ٹیپ ختم ہونے پر دوسری بدلی جاتی۔اُس وقت کے تمام تر مقبول ڈراموں اور پروگراموں کے لئے یہی ٹیپ استعمال ہوتی تھی
واشنگٹن —
تو جناب، بات یہاں تک پہنچی تھی کہ پی ٹی وی کے کرنٹ افیئرز یا حالات حاضرہ کے پروڈیوسر نوید ظفر جھومتے جھامتے کمرے میں داخل ہوئے۔مجھے نوید کو مرحوم لکھتے عجیب سا محسوس ہو رہا ہے،کیونکہ انکی عمر ایسی نہیں تھی کہ وہ اس دنیا سے جاتے۔وہ معروف شاعر جناب یوسف ظفر مرحوم کے بڑے ہونہار،قابل اور باعلم صاحبزادے تھے۔کیسا عجیب اتفاق ہے کہ جب میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں اناؤ نسر تھا تو جناب یوسف ظفر سٹیشن ڈائرکٹر تھے اور ٹی وی پر انکے بیٹے کے ساتھ کام کیا۔نوید بھی پی ٹی وی کے ڈائرکٹر کرنٹ افئیرز کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔آخر عمر میں انہوں نے بھی داڑھی رکھ لی تھی اور وہ اپنے والد کی شبیہ نظر آتے تھے۔
نوید ظفر ٹی وی کے ایک قابلِ بھروسہ پروڈیوسر تھے۔اِسی لئے انتہائی اہمیت کی ذمےداری کا کام اُنکو سونپا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کی تقریر کے تمام ترجمے جو میں نے پڑھے،اُسکے پروڈیوسر وہی تھے۔
چونکہ، وہ دھیمے مزاج کے مرنجاں مرنج آدمی تھے، اسلئے اُنکی چال بھی بہت دھیمی اورباوقار تھی اور وہ اپنےسوچ میں گُم، قدموں کو دائیں بائیں ذرا زور دیکر چلتے تھے تو لگتا تھا کہ جھوم جھوم کر چل رہے ہیں۔بہر حال،اللہ بخشے، پیارے آدمی تھے۔
نوید نیوز روم میں داخل ہوئے اور کہا: چلئے جناب۔میں نے کہا ابھی تو میں نے اِسے پڑھا بھی نہیں ہے۔کہنے لگے،وقت نہیں ہے،اب سٹوڈیو میں ہی پڑھئیے گا،آن ائرon air
میں نے اُس ضخیم مُسوّدے پر ایک نظر ڈالی کہ اُسے اُٹھا ؤں کیسے کہ اُس انبار کو اُٹھانا کسی پہاڑ کو اُٹھانا تھا۔نوید سمجھ گئے۔کہنے لگے آپ آجائیں۔یہ آپ کو سٹوڈیو میں مل جائیگا۔آپ جلدی سے پَفِنگ کراکر وہاں پہنچیں۔اب یہ puffing،وہ مرحلہ ہوتا تھاجس میں میک اپ آرٹسٹ ہمارے منہ پر ایک پوؤڈر کا لیپ اسطرح کرتا تھاکہ جسے دیکھ کر خوداپنےآپ سے ڈر لگتا تھا، یا بعض اوقات لگتا کہ ہم کسی اور جنس سے تعلق رکھتے ہیں اور خبریں نہیں کچھ اور کام کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ جلدی میں میک اپ صاف کئے بغیرمیں رات کو گھر آگیا،تو والدہ دیکھ کر ڈر گئیں۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگیں ،بیٹا آئندہ اِس حُلیےمیں گھر نہ آنا۔بہر حال، یہ اس لئے ضروری تھا کہ سٹوڈیو کی تیز لائٹوں سے آپکی جِلد کو بچایا جاسکے۔بڑے بڑے داڑھیوں والے مولوی حضرات بھی بہت شوق سے یہ میک اپ کرواتے تھے۔
خیر، ہم سٹوڈیو پہنچے۔تھوڑی دیر میں،کچھ لوگ وہ مُسوّدہ اٹھائے آئے اور اُس ڈھیر کو میرے سامنے ایک میز پر رکھ دیا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک ہزار صفحے تو ہوں گے ،کیونکہ یہ 100 منٹ کی انگریزی تقریر کا ترجمہ تھا۔میں کچھ دیر اسکو دیکھتا رہاکہ کیا ہو گا میرے ساتھ۔پھر جو آخری ایک حربہ ہوتا ہےسب کا کہ خدا سے رجوع کیا جائے اور بچپن کی جو ایک عادت تھی کہ ہر مشکل میں درود شریف پڑھو اور مشکل آسان۔چنانچہ، درود شریف پڑھا ،ساتھ ہی اللہ میاں سے گِڑ گِڑا کر دعا کی کہ تو نے اِس مقام پر پہنچایا ہے تو سُرخرو بھی رکھنا۔ شکرانے کے نفل بھی پڑھوں گا۔
ذرا دیر ہی گزری تھی کی کیمرہ مین نے تیار رہنے کا اشارہ دیا۔اور چند لائنیں پڑھنے کو کہا،تاکہ مائکروفون اور کیمرہ کا ٹسٹ ہو جائے۔سب ٹھیک ہونے پر اس نے silence کی آواز لگائی اور چند لمحے کے بعد ہاتھ کا اشارہ دیا ،اُدھر کیمرے کی سرخ بتّی روشن ہوئی اور اِدھر ہمارے چودہ طبق بھی۔
بس جناب، اللہ کا نام لے کر پڑھنا شروع کردیا۔شروع میں سانس ذرا بے قابو تھی۔پھر، شاید اللہ تعا لٰی کو رحم آگیا اور حواس قابو میں آگئے اور پھر ذہن ٕمیں معروف براڈکاسٹر وراثت مرزا کی آواز گونجنے لگی جوصدر ایوب خان کی تقریروں کا ترجمہ پڑھنے میں مشہور تھے۔ ’میرے عزیز ہم وطنوں،دشمن کو نہیں معلوم کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے،جن کے سینوں میں قرآن ہے اور لبوں پر لا اللہ ہے‘۔ کیا بھاری بھر کم گرج دار آواز تھی۔صدر سے زیادہ اُنکی آواز میں تقریر اچھی لگتی تھی۔
بس یوں لگا کہ ایک نئی قوت نئی طاقت میرے اندر آگئی،اور جسطرح کہ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے کہ کسی مشکل یا خوف میں آپکے تمام حواس سو فیصد کام کرنے لگتے ہیں،یہی میرے ساتھ ہوا اور میں نے یہ بھاری ذمےداری محسوس کی کہ یہ ملک کےپہلے منتخب وزیر اعظم کی تقریر ہے اور اِس وقت مجھے اُنکی نمائندگی کرنی ہے۔ بس، پھر سنبھل کر میں نے اُسی وقار،متانت اور ٹھہراؤ کے ساتھ ادایئگی شروع کی جیسے کہ وراثت مرزا جیسے پرانے براڈکاسٹر کیا کرتے تھے۔
اور پھر گاڑی چل پڑی۔صفحے کے صفحے پلٹتے جارہے تھے،مختلف تحریریں سامنے آتی جارہی تھیں۔اُس زمانے میں اردو ٹائپ یا کمیپوٹر وہاں تک نہیں پہنچا تھا۔تو، یہ ہاتھ سے لکھا مُسوّدہ تھا اور مُترجِم تو سب بہت ماہر اور منجھے ہوئے تھے۔لیکن، سب کا خطِ تحریر مختلف تھا۔اب آپ سوچئے ،مختلف ہاتھوں کا لکھا ہوا پڑھنا ،کس قدر دشوار ہوتا ہے۔جبکہ، آپ نے پہلے، اُس پر نظر تک نہ ڈالی ہو۔
لیکن، اِسمیں کچھ تحریریں بہت مانوس تھیں،محمد عارف صاحب،محمد حسن صاحب،شکور طاہر صاحب اور رضی احمد رضوی صاحب کا لکھا ہم خبروں میں پڑھتے رہتے تھے۔دوسری بہت اچھی بات یہ ہوئی کہ میں نے ایک روز پہلے بھٹو صاحب کی تقریر پوری توجہ سے مکمل طور پر سنی تھی۔حالانکہ، مجھے معلوم نہیں تھا کے دوسرے دن یہ پوری تقریر مجھ سے اِسطرح لِپٹ جائیگی۔تو کم از کم یہ اندازہ تھا کہ انہوں نے کیا بات کس وقت کی ہے اور کیا لفظ استعمال کیے ہیں۔اِسکا بہت فائدہ ہوا اور بعد میں بھی،میں نے یہ عمل جاری رکھا کہ خبروں پر آنے سے پہلے میں دو تین بلیٹن سُن کر ٹی وی آتھا ،خاص طور پرانگریزی کے۔
اسمیں زیادہ تر ترجمہ محمد عارف مرحوم کا تھا۔کیا خوبصورت ترجمہ کرتے تھے۔کچّی پنسل سے لکھتے تھے ،جسکے پیچھے ربر لگا ہوتا ہے۔ جب تک صحیح لفظ نہ ملتا،پنسل سے سر کھجاتے رہتےاورموزوں لفظ ملنے پر پرانا مٹا کر اسکی جگہ نیا لفظ لکھتے۔ وہ خود ایک وقت میں ریڈیو سے ٕٕمقامی خبریں پڑھا کرتے تھے،جنہیں لکھتے بھی خود تھے۔اسلئے اُنکی عبارت ٕمیں بڑی روانی تھی۔پہلی لائن شروع کرتے ہی پورا جملہ سمجھ آجاتا تھا۔ برسوں میں نے انکی لکھی خبریں پڑھیں،کبھی کوئی مشکل نہ ہوئی۔
انکے ساتھ محمد حسن مرحوم تھے،وہ بھی بہت صاف اور عمدہ لکھتے تھے اور خبرنامہ عموماً یہی دونوں حضرات ترجمہ کرتے تھے۔
پھر شکور طاہر صاحب کی تحریر تھی،انتہائی خوبصورت طریقے سےلکھتے تھے۔چھوٹے چھوٹے جُملے۔خوش خطی سے لکھے ہوئے۔اور انکی علمیت بھی ترجمے میں جھلکتی تھی۔حالانکہ، وہ نیوز پروڈیسر تھے،لیکن خبریں بنانے کا کام بہت مہارت سے کرتے تھے۔اسی لئے وہ ترقی کرتے کرتے ڈائرکٹر نیوز کے عہدے پر فائز ہوئے اور طویل عرصے تک یہ خدمات انجام دیں۔خبروں کے علاوہ میں نے دستاویزی فلموں کے ،انکے لکھے متعدد سکرپٹ پڑھے،جو بہت مشہور ہوئیں،خاص طور پر ،حجِّ بیتُ اللہ،جسکی ریکارڈنگ کراتے ہوئے میری آواز رُندھ گئی تھی۔باہر آیا تو شکور صاحب بھی آبدیدہ تھے۔کہنے لگے تم نے جس جذبے سے پڑھا ہے اُس میں اگر فلم نہ بھی چلائیں تو بھی بھرپور تا ثر چھوڑتی ہے ۔جس نے بھی یہ فلم دیکھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔
شکور صاحب ماشاللہ،دین دار شخص تھے۔داڑھی ہمیشہ سے تھی،اوپر سے چشمہ لگاتے تو اکثر دیکھنے والے اُنہیں،مولانا کوثر نیازی کا چھوٹا بھائی سمجھتے تھے۔آجکل اسلام آباد میں ٕمطالعے میں اپنی ریٹائرمنٹ کا وقت بِتا رہے ہیں۔
انکے علاوہ، رضی احمد رضوی صاحب کا ترجمہ تھا۔وہ بھی پختہ خط میں۔سیدھے سیدھے لفظو ں سے لکھتے تھے۔تحریر میں کہیں
کوئی جَھول کوئی سُقم نہیں ہوتا تھا۔مشرقی پاکستان سے آئے تھے۔،خبروں کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔نستعلیق آدمی تھے۔ زبان بہت شُستہ اور سلِیس تھی، اسلئے پڑھنے میں کوئی دِقّت نہیں ہوتی تھی۔بعد میں وہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس کیلئے منتخب کر لئے گئے اور اب تک سینئر منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انکے علاوہ بھی کچھ اور لوگوں کا لکھا ترجمہ تھا،لیکن سب نے یہ احتیاط کی تھی کہ صاف صاف لکھا تھا،اور کاٹ چھانٹ نہیں تھی کہ پڑھنے میں دشواری ہوتی۔
پچاس منٹ ،بے تکان بولتے ہوئے، بغیر کسی رکاوٹ اور غلطی کے گزر گئے کہ اچانک کیمرہ پروڈیوسر نے جوکیمرہ مین کے ساتھ ہدایات دینے کیلئے کھڑا ہوتا ہے،رک جانے کی آواز لگائی۔میں تو ڈر گیا کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی۔ابھی اِسی شش و پنج میں تھا کہ دروازہ کھلا، نوید صاحب مسکراتے داخل ہوئے اور کہا ’بہت خوب ،آدھا کام ہو گیا۔آپ ذرا، سانس لے لیں۔پانی وانی پی لیں۔ہم ذرا ٹیپ Tape بدل لیں‘۔
اُس زمانے میں ٹی وی پربڑے بڑےقدِّآدم ویڈیو ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے،جن پر موٹی ٕموٹی spool tapes چڑھی ہوتی تھیں۔پچاس منٹ کی ایک ٹیپ ختم ہونے پر دوسری بدلی جاتی۔اُس وقت کے تمام تر مقبول ڈراموں اور پروگراموں کے لئے یہی ٹیپ استعمال ہوتی تھی۔
خیر جناب،دوسرا ٹیپ چڑھایا گیا،اور پھر کام شروع ہو گیا۔وہی رفتار، وہی انداز۔ لیکن، اعتماد پہلے سے ذرا زیادہ تھا کہ آدھا کام ٹھیک ہو چکا اورپھر یوں ہوا کہ اگلے پچاس منٹ بھی خیریت سے گزر گئے۔
لیکن، اسی اثناٴمیں نیوز روم میں بیٹھے تمام احباب باہر کنٹرول روم میں پہنچ چکے تھےکہ کاروائی دیکھیں،کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا تھا۔اِن میں زبیر علی صاحب سب سے آگے تھے جو نوید ظفر کی کرسی کے بالکل پیچھے کھڑے تھے۔جیسے ہی میں نے تقریر کے آخری الفاظ،’پاکستان پائندہ باد ‘ ادا کئے۔ایک زور دار نعرے کی گونج سنائی دی جس سے پورا کنٹرول روم ہِل کر رہ گیا۔
ابھی میں کرسی سے پوری طرح اٹھا بھی نہ تھا کہ زبیر صاحب، Bravo کا اپنا مخصوص نعرہ بلند کرتے سٹوڈیو میں داخل ہوئے، جو وہ بہت خوشی کی حالت میں لگایا کرتے تھے،اور بڑی گرمجوشی سے گلے لگالیا،اورکہا : ’ زبردست ، شاباش‘۔
پھر وہاں موجود تمام لوگ ایسے گلے ملےجیسے نکاح کے بعد دولہا سے ملتے ہیں۔ہم بھی خوشی سے ایسے سرشار ہو گئےجیسے کرکٹ ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔
اب سب سے اہم مرحلہ تھا اِن ٹیپ کو دوسرے سٹیشنوں کو بھیجنا۔کراچی کی فلائٹ سب سے پہلے اور اہم تھی جو صبح دس بجے جاتی تھی اور اسکے بعد رات کو۔ اِس لئے، پہلا ہرکارہ ایئرپورٹ روانہ کیا گیا جس نے بخیریت اُسے جہاز پر روانہ کر دیا اور سب کی جان میں جان آئی۔
یہ کام تو خوش اُسلوبی سے طے ہوگیا۔لیکن، اُسکے بعد ایک دلچسپ بات ہوئی۔جیسا کہ آپ کو بتایا تھا کہ یہ تقریرمیں نے کیمرے پر ریکارڈ کروائی تھی اور بڑے سٹائل سے سوٹ شو ٹ پہن کر بالکل بھُٹو بننے کی کوشش کی تھی۔ اتفاق سے بھٹو صاحب نے بھی ڈبل بریسٹ کا سوٹ پہنا تھا، اور میں بھی جو سوٹ لیکر گیا تھا وہ بھی ڈبل بریسٹ کا بادامی رنگ کا خوبصورت سوٹ تھا۔سب نے دیکھنے کے بعد تعریف کی کہ بہت جچ رہے ہو۔
ہم تو تقریر ریکارڈ کراکر آگئے۔بعد میں ڈائرکٹرز کے بورڈ نےجسکی قیادت منیجنگ ڈائرکٹراسلم اظہر کر رہے تھے،اُسکو بغور دیکھا۔شاید منسٹر صاحب کو بھی بتایا گیا۔سب کچھ ٹھیک تھا۔لیکن، کسی نے یہ اعتراض اٹھایا کہ پورے 100 منٹ خالد حمید سکرین پر رہے گا بطور وزیراعظم۔ جو مناسب نہیں۔اور خود اصلی وزیر اعظم کو غصہ نہ آجائے۔لہٰذا، فوری فیصلہ ہوا کہ تقریر اور تصویر تو بھٹو صاحب کی ہو اور پیچھے آواز خالد کی چلائی جائے۔
اِدھر ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ہم تو بڑے شوق سےگھر والوں کے ساتھ دیکھنے بیٹھے۔خیال تھا پورے سو منٹ سکرین پر رہیں گے۔ کافی دھاک بیٹھے گی سب پر۔ اب جب صرف آواز آئی تو سمجھئے اوس سی پڑ گئی۔
لیکن، جومزیدار بات ہوئی وہ یہ تھی کہ سب سٹیشنوں کو یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ تقریر اس طرح چلانی ہے۔ اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ لیکن، کراچی سٹیشن نے کہا کہ ہمارے پاس تو بھٹو کی تقریر والی ٹیپ نہیں ہے۔ ہم نے تو اُس پر ڈرامہ ریکارڈ کر لیا۔جیسا کہ آپ کو بتا چکا ہوں کہ ان بڑے ویڈیو ٹیپوں پر سب پروگرام ریکارڈ ہوتے تھے اور یہ ٹیپ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوتے تھے کہ اُنہیں محفوظ رکھا جائے۔ لہٰذا، کراچی والوں نے موقع غنیمت جانا۔ ایک نئی ٹیپ اُنکے پاس آئی تو اُنہوں نے فوراً اُس پر نیا ڈرامہ تیار کر لیا۔
اب کیا ہوسکتا تھا۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ دوسری ٹیپ اُنہیں تقریر کی بھیجی جاتی۔ مجبوراً وہی تقریر On Air گئی جس میں خالد حمید 100 منٹ تک سکرین پر چھائے رہے بطور وزیراعظم۔
وہاں لوگ یہ سمجھے یہ شاید بھٹو کا کوئی خاص قریبی آدمی ہےیا پھر وزارتِ اطلاعات کا کوئی افسر ہے۔،اصل حقیقت کا کِس کو علم تھا۔
لیکن، اُسکے بعد سےکراچی میں جتنے لوگ بھی ملے سب نے مجھے اردو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہی پہچانا،کیونکہ بھٹو صاحب کی بعد میں بھی تمام تقریروں کے ترجمے میں نے ہی پڑھے۔ لیکن، پسِ پردہ آواز کے ساتھ۔سامنے تصویر وزیراعظم کی ہوتی تھی۔ اور پھرجب کوئی نئی تقریر آتی تو نوید ظفر بھی مجھےبڑے پیار سےبلاتے۔آجائییے ،’اردو وزیراعظم‘۔
نوید ظفر ٹی وی کے ایک قابلِ بھروسہ پروڈیوسر تھے۔اِسی لئے انتہائی اہمیت کی ذمےداری کا کام اُنکو سونپا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کی تقریر کے تمام ترجمے جو میں نے پڑھے،اُسکے پروڈیوسر وہی تھے۔
چونکہ، وہ دھیمے مزاج کے مرنجاں مرنج آدمی تھے، اسلئے اُنکی چال بھی بہت دھیمی اورباوقار تھی اور وہ اپنےسوچ میں گُم، قدموں کو دائیں بائیں ذرا زور دیکر چلتے تھے تو لگتا تھا کہ جھوم جھوم کر چل رہے ہیں۔بہر حال،اللہ بخشے، پیارے آدمی تھے۔
نوید نیوز روم میں داخل ہوئے اور کہا: چلئے جناب۔میں نے کہا ابھی تو میں نے اِسے پڑھا بھی نہیں ہے۔کہنے لگے،وقت نہیں ہے،اب سٹوڈیو میں ہی پڑھئیے گا،آن ائرon air
میں نے اُس ضخیم مُسوّدے پر ایک نظر ڈالی کہ اُسے اُٹھا ؤں کیسے کہ اُس انبار کو اُٹھانا کسی پہاڑ کو اُٹھانا تھا۔نوید سمجھ گئے۔کہنے لگے آپ آجائیں۔یہ آپ کو سٹوڈیو میں مل جائیگا۔آپ جلدی سے پَفِنگ کراکر وہاں پہنچیں۔اب یہ puffing،وہ مرحلہ ہوتا تھاجس میں میک اپ آرٹسٹ ہمارے منہ پر ایک پوؤڈر کا لیپ اسطرح کرتا تھاکہ جسے دیکھ کر خوداپنےآپ سے ڈر لگتا تھا، یا بعض اوقات لگتا کہ ہم کسی اور جنس سے تعلق رکھتے ہیں اور خبریں نہیں کچھ اور کام کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ جلدی میں میک اپ صاف کئے بغیرمیں رات کو گھر آگیا،تو والدہ دیکھ کر ڈر گئیں۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگیں ،بیٹا آئندہ اِس حُلیےمیں گھر نہ آنا۔بہر حال، یہ اس لئے ضروری تھا کہ سٹوڈیو کی تیز لائٹوں سے آپکی جِلد کو بچایا جاسکے۔بڑے بڑے داڑھیوں والے مولوی حضرات بھی بہت شوق سے یہ میک اپ کرواتے تھے۔
خیر، ہم سٹوڈیو پہنچے۔تھوڑی دیر میں،کچھ لوگ وہ مُسوّدہ اٹھائے آئے اور اُس ڈھیر کو میرے سامنے ایک میز پر رکھ دیا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک ہزار صفحے تو ہوں گے ،کیونکہ یہ 100 منٹ کی انگریزی تقریر کا ترجمہ تھا۔میں کچھ دیر اسکو دیکھتا رہاکہ کیا ہو گا میرے ساتھ۔پھر جو آخری ایک حربہ ہوتا ہےسب کا کہ خدا سے رجوع کیا جائے اور بچپن کی جو ایک عادت تھی کہ ہر مشکل میں درود شریف پڑھو اور مشکل آسان۔چنانچہ، درود شریف پڑھا ،ساتھ ہی اللہ میاں سے گِڑ گِڑا کر دعا کی کہ تو نے اِس مقام پر پہنچایا ہے تو سُرخرو بھی رکھنا۔ شکرانے کے نفل بھی پڑھوں گا۔
ذرا دیر ہی گزری تھی کی کیمرہ مین نے تیار رہنے کا اشارہ دیا۔اور چند لائنیں پڑھنے کو کہا،تاکہ مائکروفون اور کیمرہ کا ٹسٹ ہو جائے۔سب ٹھیک ہونے پر اس نے silence کی آواز لگائی اور چند لمحے کے بعد ہاتھ کا اشارہ دیا ،اُدھر کیمرے کی سرخ بتّی روشن ہوئی اور اِدھر ہمارے چودہ طبق بھی۔
بس جناب، اللہ کا نام لے کر پڑھنا شروع کردیا۔شروع میں سانس ذرا بے قابو تھی۔پھر، شاید اللہ تعا لٰی کو رحم آگیا اور حواس قابو میں آگئے اور پھر ذہن ٕمیں معروف براڈکاسٹر وراثت مرزا کی آواز گونجنے لگی جوصدر ایوب خان کی تقریروں کا ترجمہ پڑھنے میں مشہور تھے۔ ’میرے عزیز ہم وطنوں،دشمن کو نہیں معلوم کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے،جن کے سینوں میں قرآن ہے اور لبوں پر لا اللہ ہے‘۔ کیا بھاری بھر کم گرج دار آواز تھی۔صدر سے زیادہ اُنکی آواز میں تقریر اچھی لگتی تھی۔
بس یوں لگا کہ ایک نئی قوت نئی طاقت میرے اندر آگئی،اور جسطرح کہ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے کہ کسی مشکل یا خوف میں آپکے تمام حواس سو فیصد کام کرنے لگتے ہیں،یہی میرے ساتھ ہوا اور میں نے یہ بھاری ذمےداری محسوس کی کہ یہ ملک کےپہلے منتخب وزیر اعظم کی تقریر ہے اور اِس وقت مجھے اُنکی نمائندگی کرنی ہے۔ بس، پھر سنبھل کر میں نے اُسی وقار،متانت اور ٹھہراؤ کے ساتھ ادایئگی شروع کی جیسے کہ وراثت مرزا جیسے پرانے براڈکاسٹر کیا کرتے تھے۔
اور پھر گاڑی چل پڑی۔صفحے کے صفحے پلٹتے جارہے تھے،مختلف تحریریں سامنے آتی جارہی تھیں۔اُس زمانے میں اردو ٹائپ یا کمیپوٹر وہاں تک نہیں پہنچا تھا۔تو، یہ ہاتھ سے لکھا مُسوّدہ تھا اور مُترجِم تو سب بہت ماہر اور منجھے ہوئے تھے۔لیکن، سب کا خطِ تحریر مختلف تھا۔اب آپ سوچئے ،مختلف ہاتھوں کا لکھا ہوا پڑھنا ،کس قدر دشوار ہوتا ہے۔جبکہ، آپ نے پہلے، اُس پر نظر تک نہ ڈالی ہو۔
لیکن، اِسمیں کچھ تحریریں بہت مانوس تھیں،محمد عارف صاحب،محمد حسن صاحب،شکور طاہر صاحب اور رضی احمد رضوی صاحب کا لکھا ہم خبروں میں پڑھتے رہتے تھے۔دوسری بہت اچھی بات یہ ہوئی کہ میں نے ایک روز پہلے بھٹو صاحب کی تقریر پوری توجہ سے مکمل طور پر سنی تھی۔حالانکہ، مجھے معلوم نہیں تھا کے دوسرے دن یہ پوری تقریر مجھ سے اِسطرح لِپٹ جائیگی۔تو کم از کم یہ اندازہ تھا کہ انہوں نے کیا بات کس وقت کی ہے اور کیا لفظ استعمال کیے ہیں۔اِسکا بہت فائدہ ہوا اور بعد میں بھی،میں نے یہ عمل جاری رکھا کہ خبروں پر آنے سے پہلے میں دو تین بلیٹن سُن کر ٹی وی آتھا ،خاص طور پرانگریزی کے۔
اسمیں زیادہ تر ترجمہ محمد عارف مرحوم کا تھا۔کیا خوبصورت ترجمہ کرتے تھے۔کچّی پنسل سے لکھتے تھے ،جسکے پیچھے ربر لگا ہوتا ہے۔ جب تک صحیح لفظ نہ ملتا،پنسل سے سر کھجاتے رہتےاورموزوں لفظ ملنے پر پرانا مٹا کر اسکی جگہ نیا لفظ لکھتے۔ وہ خود ایک وقت میں ریڈیو سے ٕٕمقامی خبریں پڑھا کرتے تھے،جنہیں لکھتے بھی خود تھے۔اسلئے اُنکی عبارت ٕمیں بڑی روانی تھی۔پہلی لائن شروع کرتے ہی پورا جملہ سمجھ آجاتا تھا۔ برسوں میں نے انکی لکھی خبریں پڑھیں،کبھی کوئی مشکل نہ ہوئی۔
انکے ساتھ محمد حسن مرحوم تھے،وہ بھی بہت صاف اور عمدہ لکھتے تھے اور خبرنامہ عموماً یہی دونوں حضرات ترجمہ کرتے تھے۔
پھر شکور طاہر صاحب کی تحریر تھی،انتہائی خوبصورت طریقے سےلکھتے تھے۔چھوٹے چھوٹے جُملے۔خوش خطی سے لکھے ہوئے۔اور انکی علمیت بھی ترجمے میں جھلکتی تھی۔حالانکہ، وہ نیوز پروڈیسر تھے،لیکن خبریں بنانے کا کام بہت مہارت سے کرتے تھے۔اسی لئے وہ ترقی کرتے کرتے ڈائرکٹر نیوز کے عہدے پر فائز ہوئے اور طویل عرصے تک یہ خدمات انجام دیں۔خبروں کے علاوہ میں نے دستاویزی فلموں کے ،انکے لکھے متعدد سکرپٹ پڑھے،جو بہت مشہور ہوئیں،خاص طور پر ،حجِّ بیتُ اللہ،جسکی ریکارڈنگ کراتے ہوئے میری آواز رُندھ گئی تھی۔باہر آیا تو شکور صاحب بھی آبدیدہ تھے۔کہنے لگے تم نے جس جذبے سے پڑھا ہے اُس میں اگر فلم نہ بھی چلائیں تو بھی بھرپور تا ثر چھوڑتی ہے ۔جس نے بھی یہ فلم دیکھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔
شکور صاحب ماشاللہ،دین دار شخص تھے۔داڑھی ہمیشہ سے تھی،اوپر سے چشمہ لگاتے تو اکثر دیکھنے والے اُنہیں،مولانا کوثر نیازی کا چھوٹا بھائی سمجھتے تھے۔آجکل اسلام آباد میں ٕمطالعے میں اپنی ریٹائرمنٹ کا وقت بِتا رہے ہیں۔
انکے علاوہ، رضی احمد رضوی صاحب کا ترجمہ تھا۔وہ بھی پختہ خط میں۔سیدھے سیدھے لفظو ں سے لکھتے تھے۔تحریر میں کہیں
کوئی جَھول کوئی سُقم نہیں ہوتا تھا۔مشرقی پاکستان سے آئے تھے۔،خبروں کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔نستعلیق آدمی تھے۔ زبان بہت شُستہ اور سلِیس تھی، اسلئے پڑھنے میں کوئی دِقّت نہیں ہوتی تھی۔بعد میں وہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس کیلئے منتخب کر لئے گئے اور اب تک سینئر منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انکے علاوہ بھی کچھ اور لوگوں کا لکھا ترجمہ تھا،لیکن سب نے یہ احتیاط کی تھی کہ صاف صاف لکھا تھا،اور کاٹ چھانٹ نہیں تھی کہ پڑھنے میں دشواری ہوتی۔
پچاس منٹ ،بے تکان بولتے ہوئے، بغیر کسی رکاوٹ اور غلطی کے گزر گئے کہ اچانک کیمرہ پروڈیوسر نے جوکیمرہ مین کے ساتھ ہدایات دینے کیلئے کھڑا ہوتا ہے،رک جانے کی آواز لگائی۔میں تو ڈر گیا کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی۔ابھی اِسی شش و پنج میں تھا کہ دروازہ کھلا، نوید صاحب مسکراتے داخل ہوئے اور کہا ’بہت خوب ،آدھا کام ہو گیا۔آپ ذرا، سانس لے لیں۔پانی وانی پی لیں۔ہم ذرا ٹیپ Tape بدل لیں‘۔
اُس زمانے میں ٹی وی پربڑے بڑےقدِّآدم ویڈیو ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے،جن پر موٹی ٕموٹی spool tapes چڑھی ہوتی تھیں۔پچاس منٹ کی ایک ٹیپ ختم ہونے پر دوسری بدلی جاتی۔اُس وقت کے تمام تر مقبول ڈراموں اور پروگراموں کے لئے یہی ٹیپ استعمال ہوتی تھی۔
خیر جناب،دوسرا ٹیپ چڑھایا گیا،اور پھر کام شروع ہو گیا۔وہی رفتار، وہی انداز۔ لیکن، اعتماد پہلے سے ذرا زیادہ تھا کہ آدھا کام ٹھیک ہو چکا اورپھر یوں ہوا کہ اگلے پچاس منٹ بھی خیریت سے گزر گئے۔
لیکن، اسی اثناٴمیں نیوز روم میں بیٹھے تمام احباب باہر کنٹرول روم میں پہنچ چکے تھےکہ کاروائی دیکھیں،کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا تھا۔اِن میں زبیر علی صاحب سب سے آگے تھے جو نوید ظفر کی کرسی کے بالکل پیچھے کھڑے تھے۔جیسے ہی میں نے تقریر کے آخری الفاظ،’پاکستان پائندہ باد ‘ ادا کئے۔ایک زور دار نعرے کی گونج سنائی دی جس سے پورا کنٹرول روم ہِل کر رہ گیا۔
ابھی میں کرسی سے پوری طرح اٹھا بھی نہ تھا کہ زبیر صاحب، Bravo کا اپنا مخصوص نعرہ بلند کرتے سٹوڈیو میں داخل ہوئے، جو وہ بہت خوشی کی حالت میں لگایا کرتے تھے،اور بڑی گرمجوشی سے گلے لگالیا،اورکہا : ’ زبردست ، شاباش‘۔
پھر وہاں موجود تمام لوگ ایسے گلے ملےجیسے نکاح کے بعد دولہا سے ملتے ہیں۔ہم بھی خوشی سے ایسے سرشار ہو گئےجیسے کرکٹ ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔
اب سب سے اہم مرحلہ تھا اِن ٹیپ کو دوسرے سٹیشنوں کو بھیجنا۔کراچی کی فلائٹ سب سے پہلے اور اہم تھی جو صبح دس بجے جاتی تھی اور اسکے بعد رات کو۔ اِس لئے، پہلا ہرکارہ ایئرپورٹ روانہ کیا گیا جس نے بخیریت اُسے جہاز پر روانہ کر دیا اور سب کی جان میں جان آئی۔
یہ کام تو خوش اُسلوبی سے طے ہوگیا۔لیکن، اُسکے بعد ایک دلچسپ بات ہوئی۔جیسا کہ آپ کو بتایا تھا کہ یہ تقریرمیں نے کیمرے پر ریکارڈ کروائی تھی اور بڑے سٹائل سے سوٹ شو ٹ پہن کر بالکل بھُٹو بننے کی کوشش کی تھی۔ اتفاق سے بھٹو صاحب نے بھی ڈبل بریسٹ کا سوٹ پہنا تھا، اور میں بھی جو سوٹ لیکر گیا تھا وہ بھی ڈبل بریسٹ کا بادامی رنگ کا خوبصورت سوٹ تھا۔سب نے دیکھنے کے بعد تعریف کی کہ بہت جچ رہے ہو۔
ہم تو تقریر ریکارڈ کراکر آگئے۔بعد میں ڈائرکٹرز کے بورڈ نےجسکی قیادت منیجنگ ڈائرکٹراسلم اظہر کر رہے تھے،اُسکو بغور دیکھا۔شاید منسٹر صاحب کو بھی بتایا گیا۔سب کچھ ٹھیک تھا۔لیکن، کسی نے یہ اعتراض اٹھایا کہ پورے 100 منٹ خالد حمید سکرین پر رہے گا بطور وزیراعظم۔ جو مناسب نہیں۔اور خود اصلی وزیر اعظم کو غصہ نہ آجائے۔لہٰذا، فوری فیصلہ ہوا کہ تقریر اور تصویر تو بھٹو صاحب کی ہو اور پیچھے آواز خالد کی چلائی جائے۔
اِدھر ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ہم تو بڑے شوق سےگھر والوں کے ساتھ دیکھنے بیٹھے۔خیال تھا پورے سو منٹ سکرین پر رہیں گے۔ کافی دھاک بیٹھے گی سب پر۔ اب جب صرف آواز آئی تو سمجھئے اوس سی پڑ گئی۔
لیکن، جومزیدار بات ہوئی وہ یہ تھی کہ سب سٹیشنوں کو یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ تقریر اس طرح چلانی ہے۔ اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ لیکن، کراچی سٹیشن نے کہا کہ ہمارے پاس تو بھٹو کی تقریر والی ٹیپ نہیں ہے۔ ہم نے تو اُس پر ڈرامہ ریکارڈ کر لیا۔جیسا کہ آپ کو بتا چکا ہوں کہ ان بڑے ویڈیو ٹیپوں پر سب پروگرام ریکارڈ ہوتے تھے اور یہ ٹیپ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوتے تھے کہ اُنہیں محفوظ رکھا جائے۔ لہٰذا، کراچی والوں نے موقع غنیمت جانا۔ ایک نئی ٹیپ اُنکے پاس آئی تو اُنہوں نے فوراً اُس پر نیا ڈرامہ تیار کر لیا۔
اب کیا ہوسکتا تھا۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ دوسری ٹیپ اُنہیں تقریر کی بھیجی جاتی۔ مجبوراً وہی تقریر On Air گئی جس میں خالد حمید 100 منٹ تک سکرین پر چھائے رہے بطور وزیراعظم۔
وہاں لوگ یہ سمجھے یہ شاید بھٹو کا کوئی خاص قریبی آدمی ہےیا پھر وزارتِ اطلاعات کا کوئی افسر ہے۔،اصل حقیقت کا کِس کو علم تھا۔
لیکن، اُسکے بعد سےکراچی میں جتنے لوگ بھی ملے سب نے مجھے اردو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہی پہچانا،کیونکہ بھٹو صاحب کی بعد میں بھی تمام تقریروں کے ترجمے میں نے ہی پڑھے۔ لیکن، پسِ پردہ آواز کے ساتھ۔سامنے تصویر وزیراعظم کی ہوتی تھی۔ اور پھرجب کوئی نئی تقریر آتی تو نوید ظفر بھی مجھےبڑے پیار سےبلاتے۔آجائییے ،’اردو وزیراعظم‘۔