انٹرنیٹ کی دنیا کا ایک تاریک پہلو ہے 'آن لائن پورن گرافی' یا فحش ویب سائٹس ہیں جن کے ذریعے بیہودہ مواد اور فحاشی کا زہر بچوں اور نوجوان نسل کے اندر ڈالا جا رہا ہے۔
آن لائن فحاشی ایک عالمی مسئلہ ہے جسے صرف مغرب کا مسئلہ سمجھ کرآنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ ٹیکنالوجی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ میڈیا کے ذریعے ہر روز معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے واقعات منظر ِعام پرآتے رہتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا کا ایک تاریک پہلو ہے' آن لائن پورن گرافی' یا وہ فحش ویب سائٹس جن کے ذریعے بیہودہ مواد اور فحاشی کا زہربچوں اور نوجوان نسل کے اندر ڈالا جا رہا ہے۔
بچے قوموں کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیدار قومیں جدید دنیا کے اس خطرے کو بھانپ چکی ہیں۔ گذشتہ روز برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے آن لائن فحاشی کی روک تھام کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق وائرلیس انٹرنیٹ پرووائیڈرز کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہےکہ وہ عوامی مراکز پر صاف ستھرا انٹرنیٹ کنکشن فراہم کریں۔ خاص طور پر کیفے، سائبرکیفے اورریستوران جہاں بچے اور نوجوان زیادہ جاتے ہیں۔ جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ایک صاف ستھرا وائرلیس انٹرنیٹ سروس فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
گذشتہ سال کافی کی ایک مشہور چین شاپ کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے کیفے میں آن لائن فحش ویب سائٹس کو بلاک کرے لیکن انتظامیہ ایسی ویب سائٹس کو بند کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لہذا حکومت کےاس نئے منصوبے کے تحت وائرلیس انٹرنیٹ پرووائیڈرز تمام عوامی مراکز پر موئثر فلٹر نصب کرنے کے پابند ہوں گے۔
لندن میں واقع ایشین کیفے کے مالک اظہر صاحب نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیفے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں پرفحش ویب سائٹس کے استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے البتہ کبھی نوجوانوں کا ٹولہ ایسی کسی ویب سائٹ کا استعمال کرتا ہے تو انھیں تنبہیہ کی جاتی ہے لیکن بچوں کو ایسی ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ان کا کنکشن بند کر دیا جاتا ہے۔
اس حساس معاملے نے بہت سی فلاحی تنظیموں کو اس وقت چونکا دیا تھا جب لندن میں نومبر کے مہنے میں ایک دس سال کے بچے کو ریپ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد بچوں کے تحفظ کی ایک تنظیم کی جانب سے ایک باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا اورحکومت سے آن لائن فحاشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ پیش کیا تھا۔
گذشتہ برس وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک آٹو میٹک فلٹر متعارف کرایا تھا۔
یوں اس برس برطانیہ میں فروخت کئے جانے والے کمپیوٹرز میں کمپیوٹر پہلی مرتبہ لاگ ان ہونے پر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کے گھر میں بچے ہیں؟ جواب اگر ہاں ہے تو انٹرنیٹ سروس پروائیڈروالدین کو فلٹرانسٹال کر نے کی ہدایت دیتا ہے۔ اس فلٹر کی مدد سے نہ صرف ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکتا ہے بلکہ والدین خود اپنے بچوں کی سوشل ویب سائٹس پر بیٹھنے کے اوقا ت بھی مقرر کرسکتے ہیں۔ اس فلٹر کو انسٹال کرنے والے کی عمر 18 سال سے زائد ہونی چاہیے جس کی جانچ انٹرنیٹ سروس پہنچانے والی کمپنی کرتی ہے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف برطانیہ کا ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ جڑ پکڑ رہا ہے اور والدین کو یہ بات یقینی بنانی چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھیں۔
پاکستان میں ان دنوں الیکشن مہم زوروں پر ہے سیاست دان عوام کو ایک بار پھر نئے پاکستان کا خواب دکھا رہے ہیں ایسے میں گزارش ہے کہ تعلیم جیسی اہم ضرورت تو آپ سب ہی سیاستدانوں کے منشور میں شامل ہے جس کے ذریعے آپ قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔ تو ساتھ ہی ساتھ اس آگہی کے در کو بھی کھولتے چلیے، جس سے مستقبل کے معماروں کو شدید خطرہ ہے۔