کراچی میں ادبی و ثقافتی محفلوں میں ایک بڑا نام ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ - جس نے پچھلے تین دنوں سے فنون لطیفہ سے جڑے حلقوں کی رونقیں دوبالا کی ہوئی تھیں - بلآ خر اتوار کی رات اپنے اختتام کو پہنچا۔
میلے میں شرکت کرنے والے سینئر صحافی، شاعر اور کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی کے بقول "فیسٹیول نے تین دنوں تک پاکستان اور بھارت سمیت کئی ملکوں کے ادیبوں، شاعروں اور مصنفین کو ایک ہی چھت اور ایک ہی جگہ اکھٹا کرکے ایک ایسا احسان کیا ہے جو اگلے سال سجنے والا یہی میلہ اتار سکے گا۔“
کراچی فیسٹیول میں یوں تو سات ممالک کے لوگوں نے حصہ لیا لیکن اصل میں یہ فیسٹیول دو ملکوں - پاکستان اور بھارت کے قلم کاروں کو قریب لانے کا ذریعہ بنا۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں دونوں ممالک کی اہم شخصیات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستانی عوام نے جس فراخدلی سے بھارتی مہمانوں کا استقبال کیا، ان کے خیالات جاننے میں جس قدر دلچسپی لی اور ان کی کتابوں اور تحریروں کو جو پذیرائی بخشی وہ ہمیشہ ریکارڈ پر رہے گی۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر اورکراچی لٹریچر فیسٹیول کی ڈائریکٹر امینہ سید کے بقول بھارت کی 17 شخصیات کو اس میلے میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف دو شخصیات کو چھوڑ کر تمام لوگوں نے پاکستانی عوام اور ادب نوازوں کی دعوت پر لبیک کہا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب میں امینہ سعید نے ان دوشخصیات کے ناموں سے بھی پردہ اٹھایا جو اس فیسٹیول میں نہیں آسکے۔ یہ تھیں بھارتی اداکارہ نندتا داس اور اور سینئر اداکار انوپم کھیر۔
امینہ سید کے بقول ”انوپم کھیر نے پاکستانی ویزا کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی حالانکہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انوپم کھیر کو بطور مصنف بلایا گیا تھا۔ وہ یہاں آتے تو یقیناً کچھ غلط فہمیاں دور ہوتیں مگر انھوں نے بات کو بالکل ہی الگ رنگ دے دیا جس پر سب کو بہت حیرانی ہے۔"
نندتا داس کے حوالے سے امینہ سید کا کہنا تھا کہ ”ان کے تو تمام کاغذات مکمل تھے اور وہ آ بھی رہی تھیں مگر عین وقت پر انھوں نے فون کیا کہ ’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘۔۔ اب میں نہیں جانتی کہ اس بات کا کیا مطلب ہے۔“
بہرکیف 15 بھارتی شخصیات کو فیسٹیول میں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ فیسٹیول کے دوران جس جس سیشن میں بھی ان شخصیات نے شرکت کی وہاں لوگوں کی تعداد دیدنی تھی۔ سب سے زیادہ برکھا دت کو عوام نے سنا اور ان کی گفتگو میں حصہ لیا۔
وہ بھارت کی نمایاں صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکرز میں شمار ہوتی ہیں اور چونکہ 1999ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پیش آنے والے کارگل معرکے کے حوالے سے ان کے پاس بولنے کے لئے بہت کچھ تھا اور وہ چونکہ معرکے کے وقت فرنٹ لائن سے رپورٹنگ کر رہی تھیں لہذا ان کے سیشن میں پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی برکھا دت کے اس سیشن کے سامعین میں شامل تھے۔
برکھا دت پاکستان، افغانستان، عراق، مصر اور لیببا سے بھی بھارت کے لئے رپورٹنگ کرچکی ہیں۔ اپنی انہی خدمات کے عوض انہیں چالیس سے زائد ایوارڈز مل چکے ہیں۔
سیشن میں برکھا دت کے ساتھ پاکستان کے سینئر صحافی غازی صلاح الدین، فرانسیسی صحافی اولیویئر ترک اور فرحان بخاری شریک تھے۔
فیسٹیول میں جہاں بہت ساری کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی وہیں برکھا دت کی بھی ایک کتاب کی رونمائی ہوئی۔
فیسٹیول میں بھارت کی جانب سے ایک ایسی شخصیت نے بھی شرکت کی جن کا ذکر پہلے دن زبان زد عام رہا۔ یہ نام ہے لکشمی نرائن ترپاٹھی کا جو دراصل بھارت کے بہت مشہور خواجہ سرا ہیں۔ ان کے سیشن نے بہت "رش" لیا۔ خواجہ سراوٴں کے حقوق سے متعلق لکھی گئی ان کی کتاب کو بڑی تعداد میں لوگوں نے نہ صرف خریدا بلکہ قطار میں لگ کر ان سے کتاب پر دستخط بھی لیے۔
میلے کے افتتاحی سیشن میں امریکی قونصل جنرل کراچی برائن ہیتھ بھی شریک ہوئے۔ فیسٹیول کو امریکی ادارہ برائے ’انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ‘ یعنی یو ایس ایڈ اور قونصل خانے نے اسپانسر کیا تھا۔ خود امریکی قونصل جنرل بھی یہ کہے بغیرنہ رہ سکے کہ دنیا بھر میں مصنفین، دانشوروں اور فنکاروں کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کا اتنا بڑا فورم ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ کے علاوہ کوئی اور نہیں۔
فیسٹیول کے ایک سیشن میں برائن ہیتھ خود بھی شریک ہوئے اور پینل ڈسکشن میں میزبان کے فرائض انجام دیے۔
پاکستان میں افسانہ نگاری کو اپنے قلم کے ذریعے نئی جہت دینے والے انتظار حسین کو بھی اس فیسٹیول کا حصہ قرار دیا گیا تھا لیکن عین وقت پر موت کا فرشتہ انہیں’ ملک عدم‘ کے لئے منتخب کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔ لیکن فیسٹیول کے شرکا نے انتظار حسین کو دل و جان سے خراج عقیدت پیش کیا۔
بھارتی مہمانوں سے ملاقات اور ان کے خیالات سننے کے بعد فیسٹیول کا دوسرا سب سے بڑا ایٹریکشن پاکستان میں سنیما کی بحالی رہا۔ اس موضوع کا احاطہ کرنے والے سیشنز میں لوگوں نے اس قدر بڑی تعداد میں شرکت کی کہ ہال کے بجائے اسے گارڈن میں انجام دینا پڑا۔
اس سیشن میں ٹی وی اور فلم سے جڑی نامور شخصیات نے حصہ لیا ان میں نمرا بچہ، ثانیہ سعید، فرجات نبی ، ندیم مانڈوی والا اور ٹیپو شریف شامل تھے۔ اس سیشن کی نظامت شہناز رمزی نے سنبھالی۔
فن و ثقاقت، فلم، ٹی وی، تھیٹر، ایکٹنگ اور پروڈکشن کے حوالے سے کئی سیشنز رکھے گئے کیوں کہ منتظمین کو اندازہ تھا کہ لوگ ان سیشنز میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ ان سیشنز کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ حالیہ دنوں میں کامیاب ہونے والی فلم ’منٹو‘ کی اسکریننگ ہوئی تو دوسری جانب پاکستان کے لئے دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ’آسکر‘ جیتنے والی ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شرمین عبید چنائے کے سیشن کے دوران رواں ماہ ہی آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے والی فلم ”اے گرل ان دی ریور“ کے بھی کچھ شارٹس اور پروموز دکھائے گئے جن میں لوگوں نے بہت زیادہ دلچسپی لی۔
فیسٹیول کے دوران خاص کر پہلے روز لائیو پرفارمنس اور میوزک کی محفلوں نے لوگوں کو بڑی تعداد میں اپنی جانب مبذول کیا۔
فیسٹیول کا ایک اور سیشن جسے خوب پذیرائی ملی اس کا عنوان تھا ”سرکاری اردو ۔۔ عوامی اردو۔" اس سیشن میں عارفہ سیدہ زہرہ، ناصر عباس نیئر ، مسعود اشعر اور فاطمہ حسن شامل تھیں۔