پتنگ بازی لاھور کی ثقافت کاہمیشہ ہی ایک اہم حصہ رہی ہے۔ پتنگ اور ڈور بنانے والے بے مثال کاریگروں کے علاوہ پیچ لڑانے والے ماہرین کے قصے آج بھی لاھوریوں سے سُنے جاسکتے ہیں۔ اس شہر کے باسیوں نے پتنگ بازی کو اس حد تک اپنایا کہ بسنت لاھور شہر کی ایک پہچان بن گئی۔ کٹّر مذ ہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے بسنت کو ہندووں کا مذ ہبی تہوار کہہ کر لاھوریوں کو پتنگ بازی سے روکنے کی کوشش کی تو شہریوں نے ایسی باتوں کو یکسر نظر انداز کردیا۔ عام لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ تو تفریح کے لیے بسنت مناتے ہیں اور اس موسمی تہوار کو کسی مذہب سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ سوچنے کے اس انداز ہی کا نتیجہ تھا کہ دن کی بسنت کے ساتھ ساتھ لاھور میں نائیٹ بسنت بھی منائی جانے لگی۔
نائیٹ بسنت کاآغاز کائٹ فلائرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار نبیل احمد کے بقول دس بارہ سال پہلے اندرون شہر لاھور سے ہوا جب چند چھتوں پر نوجوانوں نے سرچ لائٹیں لگا کر رات کو سفید رنگ کی پتنگیں اُڑائیں تو معلوم ہوا کہ رات کے وقت پیچ بھی لڑائے جاسکتے ہیں۔ نبیل احمد کا کہنا تھا کہ اس کے بعد تو ہر برس گڈی ڈور والوں کے ساتھ ساتھ بجلی والوں کا کاروبار بھی چمک اُٹھا اور بسنت کے دِنوں میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی سرچ لائٹیں فروخت ہونے لگیں۔
واضح رہے کہ چند برس پہلے تک لاھور میں بسنت پر صورتحال کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ ملک کے مختلف حصوں سے اور دُنیا کے مختلف ملکوں سے بھی اتنی زیادہ تعداد میں لوگ بسنت میں شرکت کے لیے آتے تھے کہ شہر کے تمام ہوٹل مکمل طور پر بُک ہوجاتے تھے۔ بڑی تعداد میں سفارتکار اور دیگر غیر ملکی لاھور کا رُخ کرتے تھے۔ شہر کی تمام بڑی عمارتوں کی چھتوں پر بسنت پارٹیوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں بھی اِن چھتوں پر بڑی بڑی پارٹیاں اور نائیٹ بسنت کا اہتمام کرتی تھیں۔ اس قدر رونق ہوتی تھی کہ غیر ممالک سے آئے لوگ نائیٹ بسنت کے مناظر دیکھ کر دَنگ رہ جاتے تھے۔ پورا شہر رات کو جاگتا تھا، موسیقی کی محفلیں، کھانا پینا اور بوکاٹا سرچ لائٹوں کی روشنی میں رات بھر جاری رہتا تھا۔
نبیل احمد کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بسنت کے اس تہوار کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ پتنگ بازی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ پتنگیں لوٹنے کے لیے گُڈیاں اُڑانے والے بھی اس تہوار کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں میں سے کچھ نے اُن کے بقول بلا سوچے سمجھے دھات کی ڈور اور کیمکل ڈور کا استعمال شروع کردیا۔ نبیل احمد نے کہا کہ قصور سب کا ہے۔ دھاتی اور کیمکل ڈور بنانے والوں کا، حکومت کے اداروں کا جنہوں نے انہیں روکا نہیں اور پتنگ اُڑانے والوں کا بھی جنہوں نے صرف پتنگ کاٹنے یا کٹی پتنگوں کو اپنی پتنگ کے ساتھ لپیٹ کر لُوٹنے کے لیے دھاتی اور کیمکل ڈور استعمال کی۔ نبیل احمد نے بتایا کہ جب اس خطرناک ڈور سے انسانوں کے گلے کٹنے شروع ہوئے تو پھر حکومت کی آنکھیں کُھلیں لیکن اُن کے بقول اُس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی اور یہ خطرناک ڈور ہر جگہ پھیل چکی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں نبیل احمد نے کہا کہ اس خطرناک ڈور سے گلہ کٹنے کے واقعات سے متعلق کوئی مستند اعدادوشمار تو موجود نہیں ہیں لیکن اُن کو ذاتی طور پر ایسے چھ سات اندوہناک واقعات یاد ہیں جن میں اس ڈور سے گلہ کٹنے سے اموات واقع ہوئیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس ڈور نے کافی لوگوں کو بُری طرح زخمی بھی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے پر اس کا اثر بہت گہرا ہوا اور یوں پہلے بسنت کے دِنوں میں کچھ پابندیاں لگائی گئیں پھر موٹر سائیکلوں کے آگے مفت لوہے کے پائپ بھی لاھور کی مقامی حکومت نے لگائے، دھاتی اور کیمکل ڈور بنانے والوں کو گرفتار بھی کیا گیا مگر بسنت کا تہوار نہ بچ سکا۔
واضح رہے کہ کیمکل اور دھاتی ڈور سے اموات کے حوالے سے پاکستان میں عدلیہ نے بھی سخت کاروائی کی تھی اور حکومت نے اس کاروائی ہی کی روشنی میں آخرِ کار پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں نبیل احمد نے کہا کہ پتنگ بازی پر پابندی کے نتیجے میں بسنت اور اس کے ساتھ ہی نائیٹ بسنت بھی اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ جو پتنگ سازی اور ڈور بنانے کے کاروبار میں تھے اب دوسرے کام کرنے لگے ہیں جبکہ اُن کی کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نے عدالت میں پتنگ بازی کے خلاف جو حکم صادر ہوا ہے اُس پر نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت کو ایسی تجاویز بھی دی گئی ہیں جن پر عمل کرکے نبیل احمد کے بقول بسنت کے تہوار کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا حکومتِ پنجاب کے وزیرِ قانون نے کہا ہے کہ جب تک اس امر کی ضمانت فراہم نہ کی جائے کہ پتنگ بازی سے کسی کا گلہ نہیں کٹے گا، بسنت کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور پتنگ بازی کو روکنے کے لیے وزیر موصوف کے بقول سخت اقدامات اسی طرح موجود رہیں گے۔ اتنی سختیوں کے باوجود پتنگ بازی کے حامیوں کی بھی لاھور میں کمی نہیں ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا ہے جو کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ لاھوریوں کو بسنت کے ثقافتی تہوار سے محروم کرنا درست اقدام نہیں ہے۔