عامر ذکی نہیں رہے، گٹار خاموش ہو گیا

انہوں ںے 14سال کی عمر سے گٹار بجانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ انفرادی انداز کے گٹار اور اس کی موہنی دھنیں ان کی شناخت تھیں۔ انہی دھنوں نے انہیں سب سے علیحدہ پہچان دی۔

حقیقت یہی ہے۔ ۔۔عامر ذکی نہیں رہے ۔ساز ٹوٹ گئے، گٹار خاموش ہو گیا اور ’سر ‘اداس ہیں۔

ملک کے مایہ ناز گٹارسٹ اور منفرد سروں کے خالق عامر ذکی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

وہ صرف 49 برس کے تھے۔ انہوں ںے 14سال کی عمر سے گٹار بجانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ انفرادی انداز کے گٹار اور اس کی موہنی دھنیں ان کی شناخت تھیں۔ انہی دھنوں نے انہیں سب سے علیحدہ پہچان دی۔

کم عمری میں ہی انہوں نے اپنے منفرد اندز سے گٹار بجا کر دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی اور انکا نام ملک کے بہترین گٹار بجانے والوں میں شمار ہونے لگا۔

پاکستان میں گٹار سننے اور بجانے والے کا عنقا ہیں۔ وجہ ہے یہاں کا ’مخصوص سیلوفن چڑھا ماحول‘ یہاں حقیقی موسیقی سننے اور اس کے چاہنے والوں کا اتنا ہی بڑا خلاء موجود ہے جتنا دنیا بھر میں سقراط کی طرح سچ کی خاطر زہر کا پیالا پینے والے کم ہیں۔

بہت سے فنکار تنہائی کے اسی غم مر گئے۔ کچھ کو یہ غم کھا گیا کہ انہیں کھل کر اپنی صلاحتیں دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ انہیں پرواز کے لئے کچھ اور آسمان چاہئے تھے۔ عامر ذکی بھی انہی فنکاروں میں سے ایک تھے ۔

عامر ذکی 8 اپریل 1968 کو سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں والد کا تحفے میں دیا گیا گٹار ہاتھوں میں سنبھالا اور خود ہی بجانا سیکھ لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہارت آئی تو لوگ دلچسپی سے انہیں گٹار بجاتا دیکھتے اور فرمائشیں بھی کرتے۔ ایک ہی سال میں گٹار اپنے ساتھ رکھنا جیسے لازم ہو گیا۔

ان کی اس مہارت کے چرچے پاپ سنگر عالمگیر تک پہنچے تو انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور نہ صرف پاکستان بھر میں ہونے والے اپنے کنسرٹس کا حصہ بنایا بلکہ دنیا کے ممالک میں ان کی پرفارمنس کرائی۔

جنید جمشید کے گروپ ’وائٹل سائن ‘ کا بھی حصہ رہے۔

1994 میں اپنا پہلا البم ریلیز کیا۔ اسی البم کے مشہور گانے ’میرا پیار‘ کی بے حد مقبولیت پرا نہیں ’ساؤنڈ کرافٹ گولڈ ڈسک ایوارڈ‘ دیا گیا۔

وہ گٹارسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سنگر بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کا گایا ہوا ایک گانا ’منی‘‘ میوزک چینل چارٹس میںٹاپ پر رہا۔ 1995 میں اسے مشہور ترین میوزک کمپنی سونک نے’سنگنیچر ‘ نام کی البم میں سموکر ریلیز بھی کیا۔

اس البم کا ایک اور گیت ’تم ہی تو ہو‘بھی بے حد مقبول ہوا۔ اس کے بول بھی عامر ذکی نے ہی لکھے تھے۔

90 کی دہائی میں عامر ذکی نے ’وائٹل سائنز ‘کے ساتھ بھی ایک البم ’ہم تم‘ کی۔

عامر ذکی نے عالمگیر کے بعد جن شہرت یافتہ فنکاروں کے لئے گٹار بجایا ان میں نصرت فتح علی، حامد علی، راحت فتح علی، علی عظمت، سلیم جاوید، نجم شیراز، حدیقہ کیانی، زوہیب حسن اور شفقت امانت علی جیسے بہت سے بڑے فنکار شامل ہیں۔

جن مشہور ترین بینڈز کے لئے انہوں نے پرفارمنس کی ان میں ’ وائٹل سائنز‘،’ آواز‘،’ جنون‘،’ دی باربیرئینز، ’ایکس اٹیک‘ اور’ اسکریچ ‘ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

انہوں نے سولو پرفارم بھی کیا۔ ان کے پہلے البم کو پاکستان اور اس سے کہیں زیادہ انگلینڈ میں شہرت ملی یہاں تک کہ اس نے کئی ایوارڈز بھی جیتے۔

2007 میں دوسرا البم ’رف کٹ‘ ریلیز ہوا جس میں حدیقہ کیانی کے ساتھ ان کا گیت ’اس بار ملو‘ کافی مقبول ہوا۔

کوک اسٹوڈیو کے بارے میں عام خیال رہا ہے کہ اس پروگرام نے ملک کے کونے کونے سے ہر فنکار، سنگر اور سازندے کو ایک جگہ اکھٹا کیا اور عوام کے سامنے پیش کیا۔

کئی سال پہلے عامر ذکی بھی’ کوک اسٹوڈیو‘ کا حصہ بنے تھے لیکن صرف ایک سیزن تک۔ اس کے بعد انہیں یہاں کی زمیں بھی تنگ ہوتی محسوس ہوئی۔ لہذا انہوں نے اسٹوڈیو کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔

ابتدائی دنوں میں ایک بینڈ سے وابستہ اور ان سے قریب کا دعویٰ رکھنے والے اور گٹارسٹ علی حیدر حبیب کے بقول : ’ہم ایک لائیو پرفارمنس سے واپس لوٹ رہے تھے جب انہوں نے اپنے گٹار کے بارے میں مجھ سے پوچھا کیا کہ کیا مجھے یہ گٹار پسند ہے۔ میں نے ہاں کہا تو انہوں نے وہ گٹار مجھے تھما دیا۔

اس کے بعد وہ اکثر مذاق میں کہتے تھے کہ انہوں نے اس پر دستخط اس لیے نہیں کیے کہ کہیں میں ان کے مرنے کے بعد وہ گٹار بھاری قیمت پر نیلام نہ کر دوں۔۔۔آج جب وہ واقعی اس دنیا میں موجود نہیں مجھے ان کی یہ بات یاد آ رہی ہے صرف اس انکار کے ساتھ کہ ۔۔عامر ذکی ۔۔ اپنی قیمت سے انجان تھے۔ ان کی قیمت کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا‘‘

وہ عام ڈگرسے نفرت کرتے تھے، عام روش سے انحراف رکھتے تھے اور انفرادیت کے اس قدر چاہنے والے تھے کہ زندگی بھر کسی کا گٹار پسند نہیں کیا۔ وہ اپنا گٹار خود بناتے اور اس پر اپنی دھنیں سجاتے رہے۔ بقول علی حیدر ’ وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی موسیقی اور اپنی ذات پر سمجھوتہ کرنے سے انکار رہے۔‘‘

انہیں گٹار بجانے کے منفرد سے منفرد انداز اپنانے کے شوق نے زندگی بھر بے چین کئے رکھا اور شاید جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ان کے ارد گرد کے حالات اور صحت ساتھ نہیں دے رہی تو انہوں نے زندگی سے ہار مان لی اور موت سے ابدی دوستی کرلی۔

ان کا انتقال جمعہ کی رات ہوا تھا۔ رات بھر ان کا جسد خاکی ایدھی سرد خانے میں رکھا گیا جبکہ ہفتے کی صبح نماز فجر کے فوری بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میں صرف ان کے اہل خاندان، دوست اور چند ایک قریبی ساتھی ہی شریک ہوسکے۔

ایدھی ہومز کے عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا جسد خاکی ان کے بھائی شاہد ذکی نے ایدھی ہوم میں رکھوایا تھا اور ہفتے کی صبح انہیں ہی واپس کر دیا گیا۔

بہت سے فنکاروں اور گلوکاروں اور زندگی میں ان کے ساتھ کام کرنے و الوں نے ان کی موت پر گہرے غم اور افسوس کا اظہار کیا لیکن صرف میڈیا کے روبرو یا سوشل میڈیا پر ورنہ ان کے آخری دیدارتک کے لئے فنکاروں کی کمی محسوس کی جاتی رہی۔