زندگی سے بھرپور، شوخی اور طنز کے دلکش امتزاج سے سجی گفتگو کرنے والامہذب لب و لہجے کا ورسٹائل آرٹسٹ اسپتال کے سر د کمرے میں مختلف اقسام کی ٹیوبوں میں جکڑا بے بس اور خاموش رہا کرتا تھا
پاکستان فلم انڈسٹری قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔اس کے پیچھے جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں وہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی رگوں میں جن لوگوں کا خون دوڑا کرتا تھا وہ سب باری باری تھک کر خاک نشین ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں لہری بھی سرفہرست تھے لیکن موت کے فرشتے کی صدا پر وہ بھی آج یعنی جمعرات 13ستمبر کو لبیک کہتے ہوئے خاموشیوں کی داستاں ہوگئے۔
شہر قائد کے وسط میں، سوک سینٹر کے قریب، گلشن اقبال کی مسجد بیت المکرم میں شام کے گہرے ہوتے سائیوں کے درمیان ان کی آخری نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد یٰسین آباد کے شہر خموشاں نے رات کے دھیرے دھیرے پھیلتے ہوئے اندھیروں کے درمیان انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں سلا لیا۔
لہری صاحب کو بیماری میں بھی ایک عمر کاٹنا پڑی۔ وہ کئی سال سے مسلسل بیمار چلے آرہے تھے ۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری مہینے تو انہوں نے یوں کاٹے جیسے صحرا میں کوئی پیاسا کانٹوں بھرے خشک گلے کے ساتھ وقت بسر کرتا ہے۔
انہیں پھیپھڑ وں اور سانس کا عارضہ لاحق تھا۔ 22اگست کو جب پاکستان میں عید کی خوشیوں کا دوسرا دن تھا، انہیں کراچی کے ہی ایک نجی اسپتال میں پھیپھڑ وں میں پانی بھر جانے کے سبب لایا گیا تھا۔ تاہم ، اس سے پہلے بھی انہیں طبیعت کے بگڑنے پر کئی بار اسپتال لایا اور لے جایا جاتا رہا۔ وہ جمعرات کی صبح تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل تھے۔ ڈاکٹرز نے انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا تاہم طبیعت مزید بگڑی تو آج ہی انہیں وینٹی لیٹر سے بھی الگ کردیا گیا جس کے فوری بعد وہ انتقال کرگئے۔
لہری کے داماد اسد محبوب کے مطابق لہری آخری ہفتوں میں سینے کے انفیکشن کا بھی شکاررہے۔ یہ انفیکشن بھی شدت اختیار کرگیا تھا۔ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پچھلے برس ان کی ایک صاحبزادی جو انگلینڈ میں مقیم تھیں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔اس خبرنے لہری صاحب کو اندر سے باہر تک رنجیدہ کردیا تھا۔ یہ خبر لہری کے لئے بہت بڑا صدمہ ثابت ہوئی اور ان کی پہلے سے خراب صحت پر مزید منفی اثر ڈالنے کا سبب بنی۔
پچھلے دنوں جب ماضی کے دو نامور فنکارشبنم اور رابن گھوش پاکستان آئے اور خاص طور سے جب وہ لہری صاحب سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو لہری نے اپنے مہمانوں کا استقبال ایک ایسی مسکراہٹ کے ساتھ کیا جس میں بیتے ہوئے وقت اور بیماری کا کرب دونوں شامل تھے اور اس مسکراہٹ کو ہونٹوں تک لانے کے لئے لہری کو جو کوشش کرنا پڑی اسے محسوس کرکے ہی مہمانوں سمیت وہاں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ غالباً لہری صاحب کی آخری مسکراہٹ تھی۔پھر بیماری اور مسلسل تکلیف نے انہیں کھل کر ہنسنے اور مسکرانے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے لہری میں اور مقبولیت کے دور میں بام عروج پر براجمان لہری کا شائبہ تک نہیں تھا۔ زندگی سے بھرپور، شوخی اور طنز کے دلکش امتزاج سے سجی گفتگو کرنے والامہذب لب و لہجے کا ورسٹائل آرٹسٹ اسپتال کے سر د کمرے میں مختلف اقسام کی ٹیوبوں میں جکڑا بے بس اور خاموش رہا کرتا تھا۔
آخری دنوں میں ان کی تیمارداری سب سے زیادہ ان کے داماد اسد محبوب نے کی۔اسد محبوب نے نمائندے سے تبادلہ خیال میں کہا کہ لہری صاحب اس قدر حوصلہ مند تھے کہ شدید نقاہت اور بیماری کے باوجود مدافعت دکھاتے رہے۔
اسد کے مطابق جن لوگوں نے لہری صاحب کاآخری دنوں تک خیال رکھا ان میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سرفہرست ہیں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود فون پر لہری صاحب کی خیریت ضرور پوچھتے تھے۔اس بات کا علم بھی شاید بہت کم لوگوں کو ہو کہ لہری صاحب کے لئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا، جو انہیں تادمِ مرگ ملتا رہا۔
فنکاروں میں سے مرحوم معین اخترکی بیٹیوں نے کئی بار اسپتال جا کر لہری کی عیادت کی ۔ مہدی حسن کی فیملی بھی لہری کے خاندان سے رابطے میں رہی۔لیکن اسد کے بقول کچھ ایسے بڑے فنکار کبھی بھی اپنی مصروفیات سے لہری کے لئے کچھ لمحوں کا بھی وقت نہیں نکال سکے جن کے ساتھ لہری نے فنی زندگی کے کئی سال گزارے۔ ان میں سے کئی نام بہت بڑے ہیں لیکن انہوں نے کبھی لہری کو فون بھی نہیں کیا حالانکہ لہری آخری ہفتوں تک ان کی آمد کے منتظر رہے۔
لہری کے کچھ چاہنے والے ایسے بھی تھے جو دور دراز اور اندرون ملک خاص کر اندرون سند ھ سے وقت نکال کر اسپتال پہنچے اور انہیں پھولوں کا تحفہ پیش کیا۔ افسوس کہ لہری آج اپنی بیوہ، پانچ بیٹے ،دو بیٹیوں اور اپنے انگنت چاہنے والوں کو چھوڑ کراس دنیا سے چلے گئے۔
لہری نے انیس سو پچاس سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا ۔ وہ جنوری 1929ء میں پیدا ہوئے۔ حقیقی نام سفیر اللہ صدیقی تھا ۔ ان کی پہلی فلم ”انوکھی “ تھی جو بلیک وائٹ تھی اور سنہ 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔
انہوں نے اپنی عمر کے 35سال فلمی دنیا کے نام کئے۔ ان کی مہارت وہ انداز ڈیلوری تھا جوکسی بھی اسکرپٹ کا محتاج نہیں تھا ۔ وہ اداکاری کرتے کرتے ، مکالمے بولتے بولتے اسے اپنے مخصوص انداز میں ڈھال لیا کرتے تھے۔ وہ ایسے مزاح نگار تھے جس کا حرف آخر بھی وہ خود ہی تھے۔مکالموں میں برجستگی، شائستگی، اتار چڑھاوٴ، تاثرات، حرکات و سکنات ۔۔سب فنوں میں وہ یکتا تھے۔
وہ تقریباً150 فلموں کے مرکزی کرداروں میں شامل رہے۔ ان فلموں میں فیصلہ، اپنا پیار، انصاف، نوکری، یہ دنیا، انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا، دیور بھابی، تم ملے پیار ملا، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، پیا ملن کی آس، جیسے جانتے نہیں، مہمان، دل دے کر دیکھو، بہاریں پھر بھی آئیں گی، انجمن، تہذیب، امن، دھماکا، میں بھی تو انسان ہوں، سوسائٹی، بابل موڑ مہاراں، ننھا فرشتہ ، پھول میرے گلشن کا، دل لگی، دلنشیں، اناڑی ، صورت اور سیرت، داغ، وعدہ ، جیو اور جینے دو، اف یہ بیویاں ، امبر، آبشار، کبھی کبھی، پرنس، موسم ہے عاشقانہ ، مسٹر رانجھا، ب گھر جانے دو، چلتے چلتے ، دل ایک کھلونا ، کرن اور کلی ، مانگ میری بھردو“ اور ” ہلچل“ جیسی شاندار اور کامیاب ترین فلمیں شامل ہیں۔ سن1986ء ان کے فلمی سفر کا آخری سال تھا۔ اس برس ان کی آخری فلم ‘دھنک’ ریلیز ہوئی مگر یہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
لہری ستر کی دھائی میں بننے والی ہر فلم کی ضرورت تھے۔ فلم کی کامیابی میں ہیرواور ہیروئن کے بعد لہری صاحب کا ہی سب سے بڑااور اہم کردار ہوا کرتا تھا۔
سنہ 1986ء میں ان کی بینائی کمزورہوگئی تھی جبکہ وہ مسلسل بیماربھی رہنے لگے تھے جس کے سبب انہیں فلمی دنیا سے رشتہ توڑنا پڑا۔اسی سال وہ لاہور سے مستقل طور پر کراچی شفٹ ہوگئے۔ فلمی دنیا سے 26برس تک دور رہنے کے بعدآج وہ موت سے قریب ہوگئے۔
شہر قائد کے وسط میں، سوک سینٹر کے قریب، گلشن اقبال کی مسجد بیت المکرم میں شام کے گہرے ہوتے سائیوں کے درمیان ان کی آخری نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد یٰسین آباد کے شہر خموشاں نے رات کے دھیرے دھیرے پھیلتے ہوئے اندھیروں کے درمیان انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں سلا لیا۔
لہری صاحب کو بیماری میں بھی ایک عمر کاٹنا پڑی۔ وہ کئی سال سے مسلسل بیمار چلے آرہے تھے ۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری مہینے تو انہوں نے یوں کاٹے جیسے صحرا میں کوئی پیاسا کانٹوں بھرے خشک گلے کے ساتھ وقت بسر کرتا ہے۔
انہیں پھیپھڑ وں اور سانس کا عارضہ لاحق تھا۔ 22اگست کو جب پاکستان میں عید کی خوشیوں کا دوسرا دن تھا، انہیں کراچی کے ہی ایک نجی اسپتال میں پھیپھڑ وں میں پانی بھر جانے کے سبب لایا گیا تھا۔ تاہم ، اس سے پہلے بھی انہیں طبیعت کے بگڑنے پر کئی بار اسپتال لایا اور لے جایا جاتا رہا۔ وہ جمعرات کی صبح تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل تھے۔ ڈاکٹرز نے انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا تاہم طبیعت مزید بگڑی تو آج ہی انہیں وینٹی لیٹر سے بھی الگ کردیا گیا جس کے فوری بعد وہ انتقال کرگئے۔
لہری کے داماد اسد محبوب کے مطابق لہری آخری ہفتوں میں سینے کے انفیکشن کا بھی شکاررہے۔ یہ انفیکشن بھی شدت اختیار کرگیا تھا۔ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پچھلے برس ان کی ایک صاحبزادی جو انگلینڈ میں مقیم تھیں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔اس خبرنے لہری صاحب کو اندر سے باہر تک رنجیدہ کردیا تھا۔ یہ خبر لہری کے لئے بہت بڑا صدمہ ثابت ہوئی اور ان کی پہلے سے خراب صحت پر مزید منفی اثر ڈالنے کا سبب بنی۔
پچھلے دنوں جب ماضی کے دو نامور فنکارشبنم اور رابن گھوش پاکستان آئے اور خاص طور سے جب وہ لہری صاحب سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو لہری نے اپنے مہمانوں کا استقبال ایک ایسی مسکراہٹ کے ساتھ کیا جس میں بیتے ہوئے وقت اور بیماری کا کرب دونوں شامل تھے اور اس مسکراہٹ کو ہونٹوں تک لانے کے لئے لہری کو جو کوشش کرنا پڑی اسے محسوس کرکے ہی مہمانوں سمیت وہاں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ غالباً لہری صاحب کی آخری مسکراہٹ تھی۔پھر بیماری اور مسلسل تکلیف نے انہیں کھل کر ہنسنے اور مسکرانے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے لہری میں اور مقبولیت کے دور میں بام عروج پر براجمان لہری کا شائبہ تک نہیں تھا۔ زندگی سے بھرپور، شوخی اور طنز کے دلکش امتزاج سے سجی گفتگو کرنے والامہذب لب و لہجے کا ورسٹائل آرٹسٹ اسپتال کے سر د کمرے میں مختلف اقسام کی ٹیوبوں میں جکڑا بے بس اور خاموش رہا کرتا تھا۔
آخری دنوں میں ان کی تیمارداری سب سے زیادہ ان کے داماد اسد محبوب نے کی۔اسد محبوب نے نمائندے سے تبادلہ خیال میں کہا کہ لہری صاحب اس قدر حوصلہ مند تھے کہ شدید نقاہت اور بیماری کے باوجود مدافعت دکھاتے رہے۔
اسد کے مطابق جن لوگوں نے لہری صاحب کاآخری دنوں تک خیال رکھا ان میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سرفہرست ہیں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود فون پر لہری صاحب کی خیریت ضرور پوچھتے تھے۔اس بات کا علم بھی شاید بہت کم لوگوں کو ہو کہ لہری صاحب کے لئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا، جو انہیں تادمِ مرگ ملتا رہا۔
فنکاروں میں سے مرحوم معین اخترکی بیٹیوں نے کئی بار اسپتال جا کر لہری کی عیادت کی ۔ مہدی حسن کی فیملی بھی لہری کے خاندان سے رابطے میں رہی۔لیکن اسد کے بقول کچھ ایسے بڑے فنکار کبھی بھی اپنی مصروفیات سے لہری کے لئے کچھ لمحوں کا بھی وقت نہیں نکال سکے جن کے ساتھ لہری نے فنی زندگی کے کئی سال گزارے۔ ان میں سے کئی نام بہت بڑے ہیں لیکن انہوں نے کبھی لہری کو فون بھی نہیں کیا حالانکہ لہری آخری ہفتوں تک ان کی آمد کے منتظر رہے۔
لہری کے کچھ چاہنے والے ایسے بھی تھے جو دور دراز اور اندرون ملک خاص کر اندرون سند ھ سے وقت نکال کر اسپتال پہنچے اور انہیں پھولوں کا تحفہ پیش کیا۔ افسوس کہ لہری آج اپنی بیوہ، پانچ بیٹے ،دو بیٹیوں اور اپنے انگنت چاہنے والوں کو چھوڑ کراس دنیا سے چلے گئے۔
لہری نے انیس سو پچاس سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا ۔ وہ جنوری 1929ء میں پیدا ہوئے۔ حقیقی نام سفیر اللہ صدیقی تھا ۔ ان کی پہلی فلم ”انوکھی “ تھی جو بلیک وائٹ تھی اور سنہ 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔
انہوں نے اپنی عمر کے 35سال فلمی دنیا کے نام کئے۔ ان کی مہارت وہ انداز ڈیلوری تھا جوکسی بھی اسکرپٹ کا محتاج نہیں تھا ۔ وہ اداکاری کرتے کرتے ، مکالمے بولتے بولتے اسے اپنے مخصوص انداز میں ڈھال لیا کرتے تھے۔ وہ ایسے مزاح نگار تھے جس کا حرف آخر بھی وہ خود ہی تھے۔مکالموں میں برجستگی، شائستگی، اتار چڑھاوٴ، تاثرات، حرکات و سکنات ۔۔سب فنوں میں وہ یکتا تھے۔
وہ تقریباً150 فلموں کے مرکزی کرداروں میں شامل رہے۔ ان فلموں میں فیصلہ، اپنا پیار، انصاف، نوکری، یہ دنیا، انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا، دیور بھابی، تم ملے پیار ملا، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، پیا ملن کی آس، جیسے جانتے نہیں، مہمان، دل دے کر دیکھو، بہاریں پھر بھی آئیں گی، انجمن، تہذیب، امن، دھماکا، میں بھی تو انسان ہوں، سوسائٹی، بابل موڑ مہاراں، ننھا فرشتہ ، پھول میرے گلشن کا، دل لگی، دلنشیں، اناڑی ، صورت اور سیرت، داغ، وعدہ ، جیو اور جینے دو، اف یہ بیویاں ، امبر، آبشار، کبھی کبھی، پرنس، موسم ہے عاشقانہ ، مسٹر رانجھا، ب گھر جانے دو، چلتے چلتے ، دل ایک کھلونا ، کرن اور کلی ، مانگ میری بھردو“ اور ” ہلچل“ جیسی شاندار اور کامیاب ترین فلمیں شامل ہیں۔ سن1986ء ان کے فلمی سفر کا آخری سال تھا۔ اس برس ان کی آخری فلم ‘دھنک’ ریلیز ہوئی مگر یہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
لہری ستر کی دھائی میں بننے والی ہر فلم کی ضرورت تھے۔ فلم کی کامیابی میں ہیرواور ہیروئن کے بعد لہری صاحب کا ہی سب سے بڑااور اہم کردار ہوا کرتا تھا۔
سنہ 1986ء میں ان کی بینائی کمزورہوگئی تھی جبکہ وہ مسلسل بیماربھی رہنے لگے تھے جس کے سبب انہیں فلمی دنیا سے رشتہ توڑنا پڑا۔اسی سال وہ لاہور سے مستقل طور پر کراچی شفٹ ہوگئے۔ فلمی دنیا سے 26برس تک دور رہنے کے بعدآج وہ موت سے قریب ہوگئے۔