پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت کو اُمید ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات شفاف ہوں گے۔ لیکن یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ 40 فی صد نوجوان الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں کرتے۔
وائس آف امریکہ نے رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے ’اپسوس‘ کے ذریعے پاکستان میں 18 سے 34 برس کے عمر کے افراد کا ایک سروے کیا ہے۔ سروے میں نوجوانوں سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا اُن کے خیال میں آئندہ عام انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں گے؟
جہاں 65 فی صد نوجوانوں نے یہ کہا کہ وہ اُمید رکھتے ہیں کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں گے تو وہیں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ اُنہیں انتخابات شفاف ہونے کی اُمید نہیں ہے۔
سروے میں 15 فی صد نوجوانوں نے الیکشن کے شفاف ہونے سے متعلق کوئی رائے نہیں دی۔
انتخابات شفاف ہونے کی امید لیکن الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد
لیکن جب سروے کے ایک اور سوال میں نوجوانوں سے قومی اداروں پر اعتماد کے بارے میں پوچھا گیا تو الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کرنے والوں کی شرح (40 فی صد) سب سے زیادہ رہی۔
'اپسوس' پاکستان کی سینئر ریسرچ ایگزیکٹو سیدہ نایاب سعید کہتی ہیں کہ سروے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کو اسی طرح پیش کر دیا جاتا ہے جس طرح وہ موصول ہوتے ہیں۔
ان کے بقول رائے دہندگان سروے میں پوچھے گئے ہر سوال کے جواب میں اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں اور یہ آرا بظاہر ایک دوسرے سے متضاد بھی ہو سکتی ہیں۔
تحقیق اور سروے کرنے والے ایک اور ادارے گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی کے خیال میں بھی سروے میں ایک ہی شخص کی دو متضاد آرا کا سامنے آنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
ان کے بقول دھاندلی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے دن بیلٹ بکس بھر دینا دھاندلی ہے۔ لیکن انتخابات سے قبل ہونے والے اقدامات کو شاید وہ دھاندلی نہیں سمجھتے۔
الیکشن کمیشن پر اعتبار کیوں نہیں؟
سیاسی تجزیہ کار اور سابق نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پر نوجوانوں کے عدم اعتماد کی وجہ الیکشن کمیشن کے حالیہ اقدامات ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اگر الیکشن شفاف ہونے کی امید ظاہر کر رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ الیکشن کے دن کی بات کر رہے ہوں کہ اس دن ان کے خیال میں دھاندلی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد تو کر رہے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی مؤثر مہم کے سبب وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے بھی آ سکتے ہیں۔
ان کے بقول پچھلے انتخابات یہ بتاتے ہیں کہ نوجوان زیادہ بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ نہیں کرتے۔ لیکن اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ نوجوانوں تک پہنچنا آسان ہے اور اسی لیے ممکن ہے کہ اس بار یہ رجحان تبدیل ہو جائے۔
کون سے ادارہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
سروے میں جب نوجوانوں سے سوال کیا گیا کہ کیا کوئی ادارہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو نوجوانوں کی اکثریت (68 فی صد) نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ انتخابی عمل پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لیکن 32 فی صد نوجونواں کی رائے میں ایسا ہو سکتا ہے۔
جن 32 فی صد نوجوانوں نے کہا کہ ادارے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، ان کی اکثریت (68 فی صد) نے کہا کہ فوج انتخابات میں مداخلت کرسکتی ہے۔
سروے میں شامل 50 فی صد نوجوانوں نے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن اور اس کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران (آر اوز) سے مطمئن نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوج کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔
ان کے بقول شاید یہی وجہ ہے کہ سروے میں نوجوانوں کی اکثریت نے یہ رائے دی ہے کہ فوج انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔