فرانس میں اسلاموفوبیا کے خلاف مسلمانوں کا مارچ
وائس آف امریکہ کے لیے پیرس سے لیزا برائنٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مارچز کے دوران بارش بھی ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مارچ میں شرکت کی۔
فرانس میں مسلمانوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں، حالیہ دنوں میں بھی یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر حملوں کے کچھ واقعات پیش آئے ہیں، جس کے باعث مقامی مسلمانوں نے اس مارچ کا اہتمام کیا ہے۔
گزشتہ ماہ دو مسلمان شہری گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے تھے۔ ان پر یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا تھا جب وہ فرانس کے جنوب مغربی علاقے میں ایک مسجد سے باہر آ رہے تھے۔
فرانس کے ایک تحقیقی ادارے 'آئی ایف او پی' کی ایک نئی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر دس میں سے چار مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذہب کی وجہ سے تفریق روا رکھی جاتی ہے۔
ایک شہری محمد نے جو اپنی بہن خدیجہ کے ساتھ اس مارچ میں شریک تھے، بتایا کہ مسلمانوں کو اکثر شدت پسند رویوں کا سامنا رہتا ہے۔
محمد نے کہا کہ ’’ہم پوری طرح اس معاشرے میں خود کو ضم محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ نوکری کے لیے انٹرویو سے لے کر کسی بھی فرانسیسی روایتی عمل کا حصہ بننے تک، ہر جگہ اپنا نام تبدیل کر لو۔‘‘
فرانس کی قدامت پسند سینیٹ نے ایک بل میں ترمیم منظور کی ہے۔ جس کے تحت مسلمان خواتین کو نقاب کے ساتھ اپنے بچوں کے اسکول کے بیرونی دوروں میں ساتھ جانے سے روکا گیا ہے۔
فرانس میں اس مارچ کو متنازع خیال کیا جارہا ہے۔ مارچ کے بعض منتظمین کا تعلق بنیاد پرستی سے جوڑا جا رہا ہے جب کہ بائیں بازو کے متعدد سیاست دانوں نے اس احتجاج میں شامل ہونے کی مخالفت کی ہے۔
مارچ میں شریک ایک خاتون نے فرانس کے پرچم کے رنگوں سے مطابقت رکھتا لباس پہنا ہوا ہے۔