امریکی شہری امینڈا نوکس نے ہالی وڈ کی فلم ’اسٹل واٹر‘ کے ساتھ ان کا نام جوڑنے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم کی کہانی کا ان پر بیتے واقعات سے کسی بھی قسم کا تعلق، ان کی کہانی کو ان کی مرضی کے بغیر استعمال کرنے کی کوشش ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فلم ’اسٹل واٹر‘ میں معروف اداکار میٹ ڈیمن ایک ایسے باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں جو فرانس جا کر اپنی بیٹی کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ ان کی فرانس کے شہر مارسیل میں اپنی دوست کے قتل کی سزا کاٹ رہی ہے۔
فلم میں اس کیس کو میڈیا میں ہائی پروفائل دکھایا گیا ہے۔ گو کہ امینڈا نوکس کا نام اس فلم میں کہیں استعمال نہیں کیا گیا مگر فلم سازوں نے مختلف انٹرویوز میں یہ کہا تھا کہ اس فلم کے بنانے کا خیال انہیں امینڈا نوکس کی کہانی کو دیکھ کر آیا تھا۔
امینڈا نوکس کون ہیں؟
امینڈا نوکس کا نام 2007 میں اس وقت عالمی میڈیا کی ہیڈلائنز کی زینت بنا تھا جب اٹلی کے شہر پیرگویا میں ایک برطانوی شہری میریٹیتھ کرچر کا قتل ان کے کمرے میں ہوا۔
پولیس نے امینڈا اور ان کے اس وقت کے بوائے فرینڈ پر شک کا اظہار کیا تھا۔ دونوں کو ابتدا میں اس کیس میں سزا ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں اٹلی کی سب سے بڑی عدالت نے 2015 میں ان کی سزا ختم کر دی تھی۔
امینڈا نوکس نے ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس اور ویب سائٹ 'میڈیم' پر ایک بلاگ میں متعدد آن لائن ویب سائٹس اور فلم کے ڈائریکٹر ٹام میکارتھی کی جانب سے فلم کی پروموشن میں ان کا نام استعمال کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کہانی کی افسانوی صورت بھی کسی ایسی سازشی کہانی کی طرح ہے جس میں انہیں مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔
انہوں نے لکھا کہ "کیا میرا نام میری ملکیت ہے؟ کیا میرا چہرہ میری ملکیت ہے؟ میری زندگی کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ میری کہانی؟ ایسا کیوں ہے کہ جن واقعات کے پیچھے میرا ہاتھ نہیں تھا، انہیں یاد کرنے کے لیے میرا نام استعمال کیا جاتا ہے؟"
انہوں نے کہا کہ وہ یہ باتیں اس لیے کر رہی ہیں کہ اب بھی لوگ ان کی مرضی کے بغیر ان کے نام، چہرے اور کہانی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ "میری معصومیت پر افسانہ طرازی کرنا، جس میں مجھ سے واقعات کے متعلق بالکل بھی نہ پوچھا گیا ہو، میری غلط سزا پر حکام کے کردار کو مٹاتے ہوئے ٹام مکارتھی نے میرا ایسا چہرہ دکھایا ہے جو نہ صرف مجرم ہے بلکہ اعتبار کے لائق بھی نہیں ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر توجہ رکھنے کی وجہ سے آج 15 برس بعد بھی وہ کیس ان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'می ٹو' تحریک کے دوران لوگوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ کسی بھی کہانی کی تشکیل میں طاقت کا عنصر کیسے کام کرتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور وائٹ ہاؤس کی سابقہ انٹرن مونیکا لوینسکی کے تعلق میں کس کے پاس طاقت تھی؟ صدر کے پاس یا ایک انٹرن کے پاس؟
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اس اسکینڈل کو لوگ ابھی تک ’’لوینسکی سکینڈل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، جب کہ اس طرح پکارنے سے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس تعلق میں کس کے پاس زیادہ طاقت تھی، کون ان واقعات میں زیادہ آزادی سے فیصلے کر سکتا تھا۔
ٹوئٹر پر ان کی ٹوئٹ کو اب تک ساڑھے 14 ہزار افراد نے ری ٹوئٹ کیا ہے اور 65 ہزار افراد نے اسے لائک کیا ہے۔
ان کے ٹوئٹر تھریڈ، یعنی ٹوئٹس کے سلسلے کے جواب میں لوگ جہاں ان سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں، وہیں فلم 'اسٹل واٹر' نہ دیکھنے کا بھی لکھ رہے ہیں۔
صحافی جوش اسٹین برگ نے لکھا کہ یہ ٹوئٹس کا سلسلہ بہت اہم ہے جو ان الفاظ پر روشنی ڈالتا ہے جو رپورٹر استعمال کرتے ہیں اور ان طریقوں کو واضح کرتا ہے جن کے ذریعے فلمیں ان لوگوں کو اپنی کہانی میں دکھاتی ہیں اور اس کا ان کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جب کہ ان کا اس میں کوئی کردار بھی نہیں تھا کہ انہیں کیسے دکھایا جا رہا ہے۔
اے پی کے مطابق پچھلے ماہ 'کان فلم فیسٹیول' میں فلم کی رونمائی کے دوران ٹام میکارتھی نے کہا تھا کہ امینڈا نوکس کا کیس اس فلم کے ابتدائی خیال میں معاون تھا۔ لیکن بقول ان کے اس سے زیادہ اس فلم کا ان کے کیس سے تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہیں خیال آیا تھا کہ اگر ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا ہوتا تو انہیں کیسا محسوس ہوتا؟
SEE ALSO: خواتین کا اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق، جرمن جمناسٹک ٹیم کی فل باڈی لباس میں شرکتاے پی کو ایک انٹرویو میں فلم کی مرکزی اداکارہ ایبیگل بریسلن نے کہا تھا کہ اگرچہ یہ کردار کچھ حد تک امینڈا نوکس کے واقعات سے مماثل ہے لیکن انہوں نے کوشش کی ہے کہ وہ نئے سرے سے کردار ادا کریں۔
فلم ’اسٹل واٹر‘ کے ریویوز کے طور پر بہت سے رسالوں اور اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں امینڈا نوکس کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں ایسوسی ایٹڈ پریس بھی شامل ہے۔ یہ فلم جمعے امریکہ میں ریلیز ہو رہی ہے۔
اے پی کے مطابق اس فلم کو ریلیز کرنے والا اسٹوڈیو فوکس فیتھرز نے جمعے کے روز تک ایجنسی کی جانب سے بذریعہ ای میل سوالات کا جواب نہیں دیا تھا۔
[اس رپورٹ کے بنانے میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے مواد لیا گیا]۔