منیر نیازی احتجاج کا شاعر

منیر نیازی

منیر نیازی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اُن کے یہاں احتجاج کی آواز بہت بلند ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کی آواز اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ سب سےجدا اور سب سے منفرد ہے جسے سینکڑوں صداﺅں کے درمیان بھی پہچاناجا سکتا ہے، کیونکہ اُن کی لفظیات سب سے جد ا ہیں ۔

منیر نیازی 19 اپریل سنہ 1926 ءکو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویژن سے وابستہ رہے۔ انہیں بہت جدو جہد بھری زندگی گزارنی پڑی ۔

وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں ان کے نصف درجن شعری مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں تیز ہوااور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیارشامل ہیں۔ اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔ پنجابی میں بھی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے تھے ۔

26دسمبر سنہ 2006کو لاہور میں اِس البیلے شاعر کا انتقال ہو گیا ۔

منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تھے، ہزاروں شاعروں کی بھیڑ میں اُن کا کلام پہچانا جا سکتا ہے ۔

دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ اسی لئے وہ بے تکان لکھتے رہے اور آخر وقت تک انہوں نے شاعری کی۔

ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا کیونکہ منیر نے خود کو کبھی بھی حکومتِ وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ حزب مخالف کا رول اد اکرتے رہے۔ اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے ۔

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے


منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو

کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

اگرچہ انہیں فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں بیشتر منیر ہی کی ہیں مثلاً:


اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کے باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

یا پھر:

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی

بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کھل گئے شہر غم کے دروازے

اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی

اور

جس نے میرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں


انہیں نا شناسی کا دکھ آخری دم تک رہا:

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خاموشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا


ان کی باغیانہ غزلوں میں ایک معروف غزل کے کچھ اشعار:

گھرا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ

چمک زر کی اسے آخر مکان خاک تک لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔

ان کی اپنی زندگی یا پھر عمومی طور پر زندگی کی بہترین اوربھرپور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا