بالی ووڈ فلموں میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت رہا ہے۔ نئی بھارتی فلم "ہنٹیڈ" میں پہلی مرتبہ اسٹریوفونک ساوٴنڈ اور تھری ڈی ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے ہارر فلم بنائی گئی ہے ۔ چونکہ یہ ٹیکنالوجی سب سے زیادہ ڈراوٴنی فلموں میں ہی کامیابی کے ساتھ پیش کی جاسکتی تھی لہذا ڈائریکٹر وکرم بھٹ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کینیڈا سے اس کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں اور فلم "ہنٹیڈ" بناڈالی۔
فلم کے نمایاں فنکاروں میں مہاشے چکرورتی، ٹیا واجپائی، اچت کور اور عارف ذکریاشامل ہیں جبکہ پروڈیوسر ارون رنگ چاری اور موسیقار چترنجن بھٹ ہیں۔
ڈائریکٹر وکرم بھٹ اس سے پہلے بھی ہارر فلم" راز" پر طبع آزمائی کی تھی جس نے باکس آفس پر خوب نام و پیسہ کمایا۔ اس کے بعد وکرم نے الگ الگ موضوعات پر کئی فلمیں ڈائریکٹ کیں مگر" راز "جیسی کامیابی انہیں دوبارہ نہیں ملی۔ اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر ہارر فلم "ہنٹیڈ "بنائی ہے ۔
وکرم کی خاصیت ہے کہ وہ کم سے کم بجٹ میں چھوٹی کاسٹ کو لے کر فلم بناتے ہیں ۔ اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے ۔ فلم کے ہیرو متھن چکرورتی کے بیٹے مہاشے چکرورتی ہیں۔ وہ اس سے قبل فلم" جمی" میں کام کرچکے ہیں لیکن اس فلم میں ان کی وضح قطع اور بالوں کا اسٹال بالکل منفر د ہے۔
جہاں تک فلم کی کہانی کا تعلق ہے وکرم بھٹ نے اسٹریوفونک ساونڈ اور تھری ڈی امپیکٹ کو بہترین بنانے پر اس قدر توجہ دی ہے کہ وہ اسکرپٹ پر پوری طرح توجہ ہی نہیں دے سکے۔ فلم میں ستر اور اسی کی دھائی میں بننے والی ڈراونی فلموں کی طرح بھوتیا حویلی اور اس میں بھٹکتی شیطانی روحوں کے علاوہ نیا کچھ اور نہیں۔
بزنس میں بہت بڑا نقصان برداشت کرنے کے بعد ریحان(مہاشے چکرورتی ) کے والد اسے اپنے وسیع وعریض بنگلے کو بیجنے کی ڈیل فائنل کرنے کی غرض سے اوٹی بھیجتے ہیں۔اوٹی میں واقع اس بنگلے کا سودا ہوچکا ہے مگر بنگلے کا نیا مالک ڈیل پر اسی صورت میں سائن کرنے پر آمادہ ہے جبکہ اس بنگلے کو بھٹکتی روحوں سے آزاد کردیا جائے۔ علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اسی سال پرانے بنگلے میں بھٹکتی آتماوٴں کا بسیرا ہے ۔ ہررات حویلی میں سے ڈراوٴنی آوازیں آتی ہیں اور ریحان کے آنے کے ٹھیک ایک دن پہلے بنگلے کے ایک نوکر کا قتل ہوجاتا ہے جس سے ڈر کردوسرے نوکر بھی ملازمت چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
ریحان اکیلے ہی بنگلے میں ٹھہرنے کا فیصلہ کرتا ہے مگر پہلی رات ہی اس کے ساتھ کئی پراسرار واقعات پیش آتے ہیں اور کوئی ان دیکھی قوت اسے قتل کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر ریحان ہمت نہیں ہارتا۔ بنگلے میں قیام کے دوران اسے بنگلے سے جڑے کئی رازوں کا پتہ چلتا ہے۔ یہیں اسے ایک خوب صورت لڑکی (ٹیا واجپائی) کی تصویر ملتی ہے جسے دیکھ کر اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس سے بے حد پیار کرتا رہا ہو۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے۔
بنگلے میں قیام کے دوران ہی اس کے ہاتھ ایک خط لگتا ہے جو اس بنگلے میں تقریباً اسی سال پہلے اپنی فیملی کے ساتھ رہنے والی میرا (ٹیاواجپائی)نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنے اہل خانہ کے نام لکھاتھا ۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد ریحان میرا کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اسی سال پہلے ،ماضی میں جاکر میرا سے متعلق ہر معلومات اکھٹی کرنے کا تہہ کرتا ہے۔
تقریباً ڈھائی گھنٹے کی فلم صرف چار کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ وکرم نے ریحان کے کردار پر بہت محنت کی ہے ۔ فلم کے ہر ہارر سین میں مہاشے کے چہرے کے تاثرات میں اتار چڑھاوٴ نظر آیا ہے۔ ٹیا واجپائی کو اداکاری سے زیادہ چیخنا چلانا تھا لیکن انٹرول کے بعد جب کہانی اسی سال پیچھے جاتی ہے تو ٹیا کی معصومیت، اس کی سادگی اور خوبصورتی کو کیمرہ مین نے بہت اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ کہانی بیچ بیچ میں اس قدر ادھر بھٹکی ہے کہ دیکھنے والے کے سر پر سے گزرجاتی ہے۔